حرفِ تشکر- خلد سخن (2009)
طلوعِ صبحِ تیقّن، حصارِ شب، آنکھیں
ہوئی ہیں منظرِ غم کے دھویں سے آلودہ
حروفِ زر ہیں ندامت کے روز و شب کا نصاب
غنا و فقر کی دولت کی ہے طلب کس کو
شعورِ عدل کا موسم پسِ اُفق بھی نہیں
نفاذِ جَبْر کی ساعت میں رتجگوں کا خمار
ثنا کے رزق کا طشتِ ہنر ہے ہاتھوں میں
قلم کی نوک پہ رہتی ہیں سبز سی کرنیں
بہارِ گنبدِ خضرا ہے جن کے دامن میں
جمالِ نعتِ مسلسل، سحاب رت، کلیاں
ہوا کی زرد ہتھیلی پہ ہیں دیے روشن
ثنائے مرسلِ احمدؐ کی خوشبوؤں سے قلم
ورق ورق پہ مدینے میں گھر بناتا ہے
تمام کرب پگھلنے لگا ہے مٹھی میں
حدیثِ رزقِ ثنا کا نزول جاری ہے
ریاضؔ کیف کا عالم ازل سے طاری ہے