(اظہاریہ:’’لا محدود‘‘ کی رمز اَظہار (شیخ عبد العزیز دباغ- لامحدود (2017)
’زر معتبر‘ سے لے کر ’دبستانِ نو‘ تک ریاض حسین چودھری کا نعتیہ کلام ثنائے نبی aکی 13 منزلہ ریاض الجنۃ ہے جس کی ہر منزل امواجِ کوثر وتسنیم کی جولانیوں سے سیراب ہے اور جن کا مطالعہ درِ رسول محتشمa پہ حاضری کی کیفیات کا امین ہے۔ ان کی چودھویں منزل ’’لا محدود‘‘ ہے جو کہ آھنگ، مزاجِ شعر اور رمزِ اظہار کے لحاظ سے پہلے13 مجموعوں سے مختلف ہے۔
یہ چودھواں مجموعہ ’لا محدود‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے جس نے خالق و مالک اور پروردگارِ کائنات کی اُس تجلی سے جنم لیا ہے جو خِلقت کی لامتناہی پہنائیوں میں ’’واسعٌ علیم‘‘ کی ترشّحاتِ نور سے کندہ ہے اورجملہ جہانوں کو محیط ہے جبکہ جملہ مخلوق مل کر بھی اُس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ بقول اقبال:
’’گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب‘‘
زُود گو اور بسیار گو ریاض پہلے دو نعتیہ، سہ نعتیہ بلکہ چہار نعتیہ لکھتے رہے ہیں مگر یہاں وہ دو حمدیہ لکھ رہے ہیں کیونکہ ’’لا محدود‘‘ بنیادی طور پر بارگاہِ صمدیت میں تسبیح و تحمید کا ایسا روح افروز تجربہ ہے جس نے انہیں نورِ تجلی کے سائبان کی طرح ڈھانپ رکھا ہے۔ یہ سائبان اس مجموعے میںہر حمد و توصیف کی کمپوزیشن پر عنوان کی صورت تنا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ عنوانات کچھ یوں ہیں:
٭ ’’خدا ہے، مالک و مختار ہے، ارض و سما دے گا‘‘
٭ ’’پادشاہی ہے تری سب سرحدوں سے ماورا‘‘
٭ ’’قادرِ مطلق! تری ہی ذات لا محدود ہے‘‘
٭ ترے ہی قبضۂ قدرت میں ہر اک سانس ہے میری‘‘
٭ ہر نوا، ہر ضابطہ، ہر التجا سجدے میں ہے
٭ کون قندیلوں سے بھر دیتا ہے دامان سخن
ریاض آخر تک ایسے ہی عنوانات باندھتے چلے جاتے ہیں۔ ہر عنوان ایک رمزِ کیف ہے جو دل کی دھڑکن بن کر الفاظ و معانی کے رقص و سرود میں محوِ وجد ہے۔ کلام کے ایک ایک نقطے سے بارگاہِ رحمن میں بندگی کا احساس جھلکتا نظر آتا ہے جیسے ریاض نے نطقِ الٰہی کو یہ کہتے سن رکھا ہے کہ:
ـ ’’ اگر تم اس بات پر قدرت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل سکو اور کائنات کو مسخر کرلو تو تم نکل جاؤ، تم جس مقام پر بھی نکل کر جاؤگے وہاں بھی اسی کی سلطنت پاؤگے۔ پہنائے فطرت میں خدا کے قانون کی ہمہ گیری کا یہ عالم ہے کہ وہ ساری کائنات کو محیط ہے۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ اُس کی گرفت سے فرار پاسکتے ہو تو کائنات کی حدیں پھلانگ کر نکل جاؤ۔ لیکن تم ایسا کبھی کر نہیں پاؤگے۔ کائنات کی حدوں سے باہر جانے کے لیے خدا کے پروانۂ راھداری کی ضرورت ہوگی جو کہ کسی کو نہیں مل سکتا۔ ‘‘ (سورۃ الرحمٰن:آیت 33)
لہٰذا تمہیں کائنات کی حدوں کے اندرہی رہناہوگا۔ ریاض شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ انسانی زندگی کی ممکنات اور کائنات کی ارتقائی وسعتوں کا یہ عالم ہے کہ ماورا ہونے کی سعی محض اتباعِ قوانینِ الٰہیہ ہی سے کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے مگر یہ تو حیاتِ جاوید کی منزل ہے جو اخروی زندگی ہی کا طرۂ امتیاز ہے یعنی اتباع کرتے ہوئے آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکلنا دراصل جنت میں داخل ہونا ہے، وہ جنت جو ارض و سما ہی کی طرح وسیع ہے۔
’’لامحدود ‘‘ میں ہمیں اِسی نطق الٰہیہ کی باز گشت نظر آتی ہے۔
تیرے ہی زیرِ نگیں ارض و سما کی وسعتیں
پادشاہی ہے تری سب سرحدوں سے ماورا
یہ زمیں، یہ آسماں، یہ چاند تارے ہیں ترے
ذرّہ ذرّہ کل جہانوں کا ہے مصروفِ ثنا
وقت کی رفتار ہے پابند تیرے حکم کی
تو نے لکھی ہے خلاؤں میں کتابِ ارتقا
ریاض نے کلامِ الٰہی پڑھا ہی نہیں سنا بھی ہے اور اس حسی تجربے کے ذریعے کتاب ارتقاء کے انوار کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتارا اور سمویا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خلاؤں میں کتابِ ارتقاء کو لکھا دیکھ رہے ہیں۔ یہ نطقِ الٰہی جب اقبال نے سنا تو کہا تھا۔
’’کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون‘‘
رب کریم نے فرمایا ہے:
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَo
اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقینا ہم (اس کائنات
کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیںo۔ (51 : 47)
بلکہ فرمایا:
يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ۔
اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے، (35 : 1)
اور یہ بھی پڑھا اور سنا کہ:
وَلَهٗ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط کُلٌّ لَّهٗ قَانِتُوْنَo
اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے، سب اسی کے اطاعت گزار ہیںo
مگر ریاض جب حیاتِ انسانی کو دیکھتے ہیں تو کرب میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ یہاں انہیں وہ ارتقائے اطاعت نظر نہیں آتا جس میں کائنات کا ذرہ ذرہ مستغرق ہے:
راکھ میں ہم ڈھونڈتے رہتے ہیں چنگاری کوئی
ہم جلا بیٹھے ہیں مقتل میں نصابِ ارتقا
تاہم کائنات میں نصابِ ارتقاء کی ترویج و تکمیل بہرحال جاری و ساری ہے:
یہ زمیں ساری کی ساری ایک مسجد ہے ریاضؔ
لازماً اوپر بلندی پر خلا سجدے میں ہے
ارتقا کا یہ مضمون ’’لامحدود ‘‘ کی فکری ہیئت میں جزوِ لاینفک کی طرح سمایا ہوا ہے۔ وہ نئی نسل کے مستقبل کے بارے میں دل کی گہرائیوں میں پیوست ایک تشویش رکھتے ہیں اور اس کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا دے ہنر ان کو
مرے بچوں کی تختی پر حروفِ ارتقا لکھنا
کائنات کی ارتقائی منازل کو ’’کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْن‘‘ [وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے] کی روشنی میں میں ریاض کی نظر خلا میں لکھی گئی کتابِ ارتقا اور سجدہ ریز نصابِ ارتقا کے علاوہ اور کیا کچھ دیکھ لیتی ہے اس بارے ان کا جنونِ ستایش کچھ اس طرح گویا ہے:
اُنؐ کے نقوشِ پا کی نشانی کے طور پر
محشر تلک رہے گی خلاؤں میں روشنی
یہاں رسولِ محتشم a کے سفرِ معراج کی تلمیح لطافتِ کلام کے عروج پر ہے، جو کہ ریاض کے فنِ شعر اور تخلیقی تخئیل کا خاصہ ہے۔ ان کا ذوقِ نعت ارتقائے کائنات میں خلا کی منزل پرمعراجِ نبی ؐ کوکیسے فراموش کر سکتا ہے! حقیقت تو یہ ہے کہ معراجِ رسالتa خلا کی انتہائے ارتقا ہے۔ ریاض نعت سوچتے سوچتے حمد میں چلے جاتے ہیں اور حمد لکھتے لکھتے نعت کہنے لگ جاتے ہیں۔ یہ یقیناً فنا کی منزل ہے۔ جوشِ جنوں میں حمدونعت کا یہ امتزاج ریاض کے ہاں اکثر ملتا ہے کہ وہ نعتِ رسول a میں فنا ہی تو ہیں۔ انہیں اپنی اس فنائیت کی خودآگاہی بھی حاصل ہے چنانچہ وہ اپنی بعض تخلیقات کو ’’حمدونعت‘‘ کا عنوان بھی دیتے ہیں۔
لامحدود کائنات ارض و سما کے خالق کے حضور ہدیٔہ حمد و ثنا پیش کرتے ہوئے ریاض اپنے من میں روشن عشقِ رسولؐ کے چراغاں سے لمحہ بھر کے لئے بھی بے خبر نہیں رہتے۔ یہ آگہی ان کا سرمایۂ حیات ہی نہیں سرمایۂ نجات بھی ہے۔ اس معاملے میں نہ وہ روز محشر کو بھولتے ہیں، نہ اپنی عملی کم مائیگی کو اور نہ ہی اس نورِ کن فکاں کو جو ہر خطاکار کو فلاحِ دارین سے فیضیاب کرتا ہے۔
ہاتھ خالی ہیں، خدائے روز و شب، محشر کے دن
میرے دامن میں نہیں کچھ عشقِ احمدؐ کے سوا
’’لامحدود‘‘ میں رب ذوا لجلال کی حمدو ثنا دھیرے دھیرے مناجات کے لب و لہجے میں بدلتی جاتی ہے اور جونہی التجا کی کیفیت دل میں اترتی ہے ریاض اپنے محبوب موضوع کو لاشعوری طور پر حرفِ دعا میں اتار لیتے ہیں:
لحد کے گوشۂ مدحت میں روزِ حشر تک مولا!
مدینے کی ہوا سے گفتگو جاری رہے میری
حتیٰ کہ وہ بارگاہِ صمدیت سے غبارِ خلدِ مدینہ کا کفن مانگنے لگتے ہیں:
اجازت ہو قیامت تک مدینے میں سکونت کی
غبارِ خلدِ طیبہ سے کفن میرا بنے یارب
ہوں کفن میں نعت گوئی کے کروڑوں آفتاب
حشر میں اٹھّے ثنا کرتے ہوئے اُنؐ کا فقیر
یوں وہ اپنی مخصوص دعائیں لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے اس مجموعۂ کلام کا یہ رنگ نہ ریاض کے کسی اور مجموعۂ کلام میں ملتا ہے اور نہ ہی کسی اور نعت گو شاعر کے ہاں یہ تجربۂ تخلیق دیکھنے کو ملتا ہے۔ ریاض کو یہ خلعتِ افتخار اختصاص کے ساتھ عطا ہوئی ہے۔
تسبیح و تحمید اور توصیف و ستایش کے اسی نشے میں ان کا قلم اور مزاجِ شعر پیہم محوِ خرام ہیں۔
قادرِ مطلق! تری ہی ذات لامحدود ہے
ہر دھڑکتے دل کی دھڑکن میں بھی تُو موجود ہے
تُو نگہباں، تُو مصوِّر، تُو ہی توّاب و رحیم
مالک و مختار بھی ہے تو ہی متکبر، عظیم
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ الٰہ العالمین کی ذاتِ واحد و قہار کے بارے میں متعدد آئمہ کرام نے سیر حاصل لکھا ہے۔ جب وہ توحید بیان کرتے ہیں تو اللہ بزرگ و بر تر کے لامحدود ہونے کا تصورخود بخود نکھرتا چلا جاتا ہے جیسے احد اور لامحدود ہم معنی ہوں۔ امام ابو جعفر الطحاوی اور امام ابوالحسن الاشعری کا چوتھی صدی ہجری کے اوائل کا زمانہ ہے جبکہ امام غزالی چھٹی صدی ہجری کے آغاز میں ہوئے ہیں۔ توحید بیان کرتے ہوئے امام الطحاوی لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ہی اپنی صفات کاملہ سے متصف تھا۔ اس نے مخلوق کے وجود سے کوئی ایسی صفت حاصل نہیں کی جو اسے پہلے سے حاصل نہ تھی۔ اس نے اپنے لئے خالق اور باری کا نام مخلوقات اور کائنات کی پیدایش کے بعد حاصل نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کو ربوبیت کی صفت اس وقت بھی حاصل تھی جب کوئی مربوب نہ تھا اور اسے خالق کی صفت اس وقت بھی حاصل تھی جب کسی مخلوق کا وجود ہی نہ تھا۔ ‘‘
امام غزالی لکھتے ہیں:
’’وہ ایسا واحد اور قدیم ہے جس کا اول کوئی نہیں۔ وہ ازل سے ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں۔ اس کا وجود ہمیشہ باقی رہنے والا ہے جس کا آخر کوئی نہیں۔ وہ ابدی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ ‘‘
ایسے ہی دوسری اماموں نے بھی اللہ کی توحید و وحدانیت پہ بہت لکھا ہے۔ انہوں نے جو بھی لکھا ہے ـ’’لامحدود‘‘ پر لکھا ہے۔ ریاض حسین چودھری کو جہاں تک میں جانتا ہوں انہوں نے شائد ہی ایسی تحریروں یا کتب کا مطالعہ کیا ہو۔ وہ تو اپنے پیارے نبی ؐ کے ثنا گو شاعر ہیں۔ اور نعت کے مطالعہ ہی سے انہیں فرصت نہ ملتی ہو گی۔ انہوں نے کہاں ان اماموں کی دقیق کتبِ فقہ و فلسفہ کا مطالعہ کرنا تھا۔ مگر ’’لامحدود‘‘ کے مضامین اس بات کی چغلی ضرور کھاتے ہیں کہ وہ بھی اپنے وقت کے امام ہوتے اگر اُس سمت میں نکل جاتے۔ ریاض ’’لامحدود‘‘ میںذہنی، روحانی اور وہبی طور پر انہی اماموں کے جھرمٹ میں محوِ پرواز ہیں۔
مگر ریاض کا نفسِ مدرّک تو ’’عبدہٗ‘‘کے شعورِ ذات سے منورہے۔ لامحدود کے سامنے بندگی کی قیود میں رہتے ہوئے، خشوع و خضوع میں لپٹے ہوئے، ’’کشکولِ آرزو‘‘ ہاتھ میں لئے وہ ایک صاحبِ نطق سائل ہیں۔ چنانچہ ’’لامحدود‘‘ میں ان کا حمدیہ کلام ایک سائل کا لب و لہجہ لئے ہوئے ہے۔ جو قافیے اور ردیفیں وہ یہاں استعمال کر رہے ہیں وہ پہلے نعتیہ کلام کے تیرہ مجموعوں میں کم ملتی ہیں۔ وہاں وہ ثنا گو ہیں جبکہ یہاں وہ مالک کی تسبیح و توصیف کرتے ایک ’’مسکین منگتا‘‘ بن کر التجائیں کر رہے ہیں۔ یہاں ’’اے خدا میرے‘‘، ’’مولا کرم کرنا‘‘، ’’یا رب‘‘، ’’اے خدائے ذوالجلال‘‘، ’’عطا کر‘‘، ’’الٰہی کر مدد میری‘‘، ’’دے ہنر‘‘، ’’مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے‘‘ جیسی ردیفیں انہیں ندامت و لجاجت اور عجز و انکساری میں ڈوبا ہوا سائل بنا دیتی ہیں۔ ’’واسعٌ علیم‘‘ خالق سے بندے کا تعلق عجز و نیاز ہی کا تو ہے۔ ریاض خود لکھتے ہیں:
میری انا بھی عجز کے پیراہنوں میں ہے
دامن میں میرے صرف ہے پندارِ عاجزی
’’لا محدود‘‘ کی حمد لکھتے ہوئے ریاض اپنی زندگی بھر کی کاوشِ نعت کو بہر حال بھلا نہیں پائے، ذہن میں رکھے ہوئے ہیں۔ حمد کہتے ہوئے وہ اپنے نعتیہ مجموعہ ہائے کلام کے نام بھی نہیں بھولتے اور ان ناموں کو اپنی حمدیہ التجاؤں دعاؤںاورتمناؤںمیں بے ساختہ انداز میںاستعارتاً استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور یہ اُن کا اندازِ تخیل ہے:
بازارِ مصر میں مجھے لائے مرے رفیق
کشکولِ آرزو میں زرِ معتبر بھی دے
زم زمِ عشقِ نبیؐ سے لب مرے بھیگے رہیں
گلشنِ تحدیثِ نعمت میں قلم مہکا رہے
کشکولِ آرزو، زرِ معتبر، زمزمِ عشق اور تحدیثِ نعمت ان کے نعتیہ مجموعے ہیں۔
ریاض نعت کی ریاض الجنۃ میں رہتے ہوئے جام تسبیح نوش کرتے احساس بندگی میں ڈوب جاتے ہیں، اپنی 76 سالہ وارداتِ زندگی میں نورِ نعت سے منور، شانِ بندگی کی ضوفشانی زیب تن کئے آخر اکائیاں لکھنے لگتے ہیں۔ یک مصرعی نظم کی ھیئت میں اجتہادی تبدیلی کر کے ایک نئی صنفِ سخن مرتب کرتے ہیں جسے وہ اکائی کا نام دیتے ہیں اور جس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:
’’اکائی‘‘ میں شامل ہر نظم کا آغاز ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ سے ہوگا۔ یہ تکرار ایک دلنواز آہنگ کا باعث بنے گی۔ اس کا انداز عموماً خطابیہ ہوگا۔ ہر یک مصرعی نظم الگ خیال کی حامل ہوگی، لیکن بہت سی یک مصرعی نظموں کو جب ایک مربوط نظم کی شکل دی جائے گی تو یقینا اس کا ایک مجموعی تاثر بھی مرتب ہوگا۔ اکائی کا مرکزی خیال حمد و نعت کے مضامین سے ابلاغ پائے گا۔
اسی طرح ریاض اپنے خالق سے تخلیقِ حمد کی راہداری لے کر حسنِ کلام کی کائنات کے کناروں سے باہر نکلتے نظر آتے ہیں اور ان کا خالق انہیں جنت اظہار میں تنوع، تازگی، جدت اور شگفتگی کے ستاروں سے جڑی خلعتِ حسنِ کلام کا پہناوا عطا کر دیتا ہے:
مستقل
کلکِ ادب لکھتی رہے تیری ثنا
مستقل
انصاف کا پرچم ہو میرے ہاتھ میں
مستقل
حرفِ تشکر میرے ہونٹوں پر رہے
ریاض کے محاسنِ کلام کا احاطہ مجھ جیسے کم مایہ کے لئے حدِ امکان سے ماورا ہے۔ اساتذہ ان کے بارے میں شروع ہی سے ناپ تول کر ٹھیک لکھتے آئے ہیں۔ بقول حفیظ تائب ریاض کے کلام میں:
’’تقدس بھی ہے اور تازہ کاری بھی، اس کا اسلوب اردو شاعری کی تمام تر جمالیات سے مستنیر ہے۔ اور اسے جدت و شائستگی کا معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ ـ‘‘
جناب حفیظ تائب نے یہ دو دہائی پہلے 1995 میں لکھا تھا جب ابھی ریاض حسین کا پہلا مجموعہ ’’زر معتبر‘‘ شائع ہوا تھا۔ اور آج ’’لا محدود‘‘ ان کا چودھواں مجموعہ ہے جبکہ گذشتہ 13مجموعوں میں سے پانچ صدارتی اور صوبائی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ تب وہ معیار قرار پائے تھے تو آج بلا مبالغہ وہ امام ہیں اور پیشوائی کے مقام پر فائز ہیں۔
شیخ عبد العزیز دباغ