پادشاہی ہے تری سب سرحدوں سے ماورا- لامحدود (2017)
کشتِ جان و دل پہ برسا ٹوٹ کر ا برِ عطا
میرے آنگن میں گرے لاکھوں پر و بالِ ہُما
تیرے ہی زیرِ نگیں ارض و سما کی وسعتیں
پادشاہی ہے تری سب سرحدوں سے ماورا
یہ زمیں، یہ آسماں، یہ چاند تارے ہیں ترے
ذرّہ ذرّہ کل جہانوں کا ہے مصروفِ ثنا
وقت کی رفتار ہے پابند تیرے حکم کی
تُو نے لکّھی ہے خلائوں میں کتابِ ارتقا
اپنی ہر مخلوق کا رازق بھی تُو خالق بھی تُو
اے خدا! تُو ہی تو ہے حور و ملائک کا خدا
دے شعورِ بندگی ہر لفظ کو ربِّ عظیم!
آنسوئوں سے لکھ رہا ہوں مَیں حروفِ التجا
چُور زخموں سے بدن ہے اے خداوندِ جہاں
میرے جامِ زندگی میں دے مجھے آبِ بقا
ایک اک گندم کا خوشہ لے اڑی بادِ سموم
آج بھی برسے جلے ہر کھیت پر کالی گھٹا
سب کے قلبِ مضطرب کو امن کا موسم ملے
کانپتا رہتا ہے ہونٹوں پر مرے حرفِ دعا
عجز کی آب و ہوا میں سانس لے ہر آدمی
دفن ہو اپنے ہی ملبے میں کبھی قصرِ انا
میری ہر الجھن کی گرہیں کھول دے ربِّ کریم!
کام جو آسان لگتا تھا وہی مشکل ہوا
تیرے گھر کے سامنے سجدوں کی مَیں بارش کروں
تُو مجھے بارِ دِگر محبوبؐ کا روضہ دکھا
ہاتھ خالی ہیں، خدائے روز و شب، محشر کے دن
میرے دامن میں نہیں کچھ عشقِ احمدؐ کے سوا
میرے بچوّں کو محمدؐ کی غلامی کا لباس
میرے بچوّں کے سروں پر دے تحفظ کی ردا
اپنے ہر بندے کو مولا! ضبط کی توفیق دے
سرکشی پر پھر ہے آمادہ مری جھوٹی انا
مغفرت کے پھول اس کی قبر پر برسا کریں
عاجز و مسکین بندہ ہے ریاضِ بے نوا
٭٭٭
رحم فرما میرے حالِ زار پر میرے خدا
کون دے گا چاند راتوں کی خبر تیرے سوا
مشتعل لمحوں میں دے گا کون حرفِ اعتدال
کون سکھلائے گا خوشبو کو مہکنے کی ادا
عافیت کے شامیانے میں مجھے رکھّے گا کون
کون دے گا میرے اک اک زخم کو خاکِ شفا
کون دے گا علم کے انوار کی چادر مجھے
کون دے گا رزق میں مجھ کو فراوانی سدا
کس طرف جائوں بتا تُو اے مرے پروردگار
کس کے در پر جاکے رکّھوں مَیں کتابِ التجا
میرا ہر آنسو ندامت کی ردا اوڑھے ہوئے
لمحہ لمحہ کرتا رہتا ہے تری حمد و ثنا
وِرد تیرے نام کا کرتے رہیں شام و سحر
دے مرے لوح و قلم کو تُو حروفِ لب کشا
کتنی دلکش ہے تمنا شاعرِ بے دام کی
کاتبِ تقدیر بھی لکّھے پیمبرؐ کی ثنا
راکھ میں ہم ڈھونڈتے رہتے ہیں چنگاری کوئی
ہم جلا بیٹھے ہیں مقتل میں نصابِ ارتقا
گرتے پڑتے خوف کے جنگل میں آ پہنچے ہیں ہم
راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں راستہ سیدھا دکھا
بھول بیٹھے ہیں ترے قرآن کے اسباق کو
موسمِ عشقِ پیمبرؐ میں ہمیں جینا سکھا
کب تلک بارود کے پیراہنوں میں ہم رہیں
دے تُو عہدِ سر برہنہ پر تحفظ کی ردا
ہر کسی کے دامنِ صد چاک میں اترے بہار
کرب کی چادر میں ہے لپٹی ہوئی بادِ صبا
حوصلوں کی فصل کشتِ جاں میں اگتی ہی رہے
آج کا کمزور آدم زاد ہے بے دست و پا
ہو مرے آنگن میں بارش امن کے افکار کی
دور ہو یارب! مری بستی سے دورِ ابتلا
دے پرِ پرواز مجھ کو اے خدائے آسماں!
آشیاں میرا مدینے کے درختوں پر بنا
روزِ محشر بھی تلاشیں نقشِ پا سرکارؐ کے
دے مرے بچوں کو بھی نعتِ پیمبر کا صلہ
آرزو ہے آپؐ کے نقشِ کفِ پا ہوں نصیب
منتظر آنکھیں مری بھی ہوں رہِ غارِ حرا
امنِ عالم کے سنہری دور کا آغاز ہو
میرے سر سے بوجھ زخمی فاختائوں کا اٹھا
ساحلِ امید پر اتریں یقیں کے قافلے
ہر کسی کی کشتیوں کو تند موجوں سے بچا
اب ہوائوں کو تجوری میں بھی بند کرلیتے ہیں لوگ
حَبس کے مارے ہوئوں کو دے کھُلی آب و ہوا
خوشبوئے شہرِ سخن اوراق پر پھیلی رہے
لب بہ لب ہو منتقل یارب! دبستانِ دعا
ہر قدم پر موسمِ بے رنگ ہے یارب! محیط
تشنہ لب بنجر زمینوں کو ملے آبِ بقا
یا خدا! آسانیاں، آسانیاں، آسانیاں
ہے بہت ہی تلخ شامِ زندگی کا ذائقہ
میرے پاکستان کے چہرے پہ اترے روشنی
میرے پاکستان کے چہرے سے دھبوں کو مٹا
میری نسلوں کی بھی ہو پہچان توصیفِ رسولؐ
تا ابد گھر میں رہے عشقِ پیمبرؐ کا ہُما
گھر سے باہر یا خدا! بچّے نکلتے ہی نہیں
میری گلیوں سے ہوائے جبر کا ہو انخلا
میری کلکِ خوشنوا سے پھول ہی جھڑتے رہیں
ہر بیاضِ نعت میں ہو رتجگا ہی رتجگا
پھول ہی کھلتے رہیں شاخِ ادب پر نعت کے
جھوم کر اٹھّے گلستانِ محمدؐ سے گھٹا
گنبدِ خضرا، مواجھہ، مسجدِ نبوی، حرم
میرے اندر بھی ہے قائم شہرِ طیبہ کی فضا
بن کے حرفِ التجا آیا ہوں مَیں تیرے حضور
پیرہن تیرے کرم کا ہو سخنور کو عطا
سجدہ ریزی میرے اشکوں کی بھی ہو یارب! قبول
مخمصے میں مجھ کو رکھتی ہے مری جھوٹی انا
آرزو تھی لے کے آتا مَیں بھی خورشیدِ سخن
مَیں ریاضِؔ بے نوا لایا ہوں مٹی کا دیا