حسنِ طلب- خلد سخن (2009)
غبارِ شہرِ تحیّر میں گُم جمالِ غزل
ہمارے ذہن تفکر کے نور سے عاری
قلم، حدیث، دل و جاں کا منکرِ اعظم
زباں پہ موسمِ لکنت زدہ کی پسپائی
اُفق اُفق پہ بچھائی گئی صفِ ماتم
ازل سے اشکِ مسلسل کی داستانوں میں
غبارِ شامِ ہلاکت کا گھپ اندھیرا ہے
غلام گردشِ قصرِ اَنا کی شامیں بھی
فقط حضورؐ کے اسمِ یقیں سے روشن ہیں
فلک پہ چاند ستاروں کی ساری قندیلیں
انہیؐ کے نقشِ قدم سے جواز لیتی ہیں
مرا وجود شبِ مقتلِ ہوس میں ہے
منافقت کے جزیرے میں آج بھی تنہا
کھڑا ہوں حرفِ ندامت ہو جیسے پتھر پر
سحر بھی بال سمیٹے ہوئے ہے برسوں سے
حضورؐ، آپؐ کے دامن کی چاندنی مانگوں
یقین و عزمِ مسلسل کی روشنی مانگوں