اے خدا میرے وطن میں امن کی پُروا چلے- لامحدود (2017)
اِس برس بھی ہاتفِ غیبی نے دی ہے یہ نوید
آنسوئوں سے نعت لکھّے گی مری فکرِ جدید
سجدہ ریزی میں قلم مصروف ہو گا رات دن
آرزوئے مدحتِ خیرالبشرؐ ہوگی شدید
اِس برس بھی اذنِ مدحت دے گا ربِّ ذوالجلال
اِس برس بھی لفظ میں اترے گا طیبہ کا جمال
اِس برس بھی آپؐ کی توصیف کے لکھّوں گا پھول
اِس برس بھی نعت کا برسے گا ا برِ بے مثال
آسماں سے ہو گا رحمت کے ستاروں کا نزول
ہوں گے پس منظر میں بس نقشِ کفِ پائے رسولؐ
مَیں حجازِ عشق میں ہر وقت رہتا ہوں، حضورؐ
اب کے بھی اپنی رعایا کی سلامی ہو قبول
اس برس بھی چاند چمکے حجلۂ افکار میں
ان گنت آنسو چھلک اٹھّیں در و دیوار میں
اس برس بھی خلدِ طیبہ میں رہے روحِ ادب
منتظر آنکھیں رہیں پھر حسرتِ دیدار میں
طاقِ جاں میں آرزوئوں کا دیا جلتا رہے
پیش منظر میں فقط سرکارؐ کا روضہ رہے
زم زمِ عشقِ نبیؐ سے لب مرے بھیگے رہیں
گلشنِ تحدیثِ نعمت میں قلم مہکا رہے
اے خدا! میرے وطن میں امن کی پُروا چلے
کوچہ و بازارِ جاں میں علم کا سکّہ چلے
عافیت کی چاندنی برسے در و دیوار پر
زیرِ لب پڑھ کر درودِ پاک ہر لمحہ چلے
خاکِ ارضِ پاک پر اترے بہاروں کا ہجُوم
مکتبِ عشقِ نبیؐ کے ہر ورق پر ہوں علُوم
نسلِ نو کے ہاتھ میں ہوں عزمِ نو کے آفتاب
آگہی کے پھول برساتے رہیں ماہ و نجُوم
علم و حکمت اور دانائی کے دریا ہوں رواں
روشنی بھر دے کتابوں میں قلم کی کہکشاں
اے خدا! الطاف و رحمت کی فراوانی ملے
ہو وظیفہ ’’یامحمدؐ‘‘ تا ابد وردِ زباں
نغمۂ صلِّ علیٰ یارب! سنائی دے مجھے
گنبدِ خضرا کا ہر منظر دکھائی دے مجھے
گمرہی کے ہر تصوُّر کو جھٹک دوں، اے خدا!
سر پھرے مجہول لمحوں سے رہائی دے مجھے
آج بھی زخموں کا آتش دان ہے میرا بدن
قلبِ شاہانِ انا کو عجز کا دے پیرہن
ذہنِ انسانی میں مہکیں پھر اخوت کے گلاب
منحرف چہروں کا بھی بدلے خداوندا چلن
اِس برس بھی کیف میں ڈوبی رہے شامِ درود
اِس برس بھی رقص کے عالم میں ہو گل کا وجود
اِس برس بھی شہرِ مدحت میں جلیں لاکھوں چراغ
روشنی دیتی رہیں ملکِ محبت کی حدود
اِس برس بھی عشق کی قندیل لفظوں میں جلے
اِس برس بھی بادِ مدحت میری بستی میں چلے
اِس برس بھی اے خدا میں شہرِ حیرت میں رہوں
شاخِ جاں پر آرزوئوں کی کلی پھولے پھلے
لفظ ہر اشکِ مسلسل سے وضو کرتا رہے
نقشِ پائے مصطفی کی آرزو کرتا رہے
یہ ضروری ہے مری بزمِ تصوُّر کا چراغ
شہرِ طیبہ کی ہوا سے گفتگو کرتا رہے