چمن میں ہر پرندے کے لئے اک آشیاں اترے- لامحدود (2017)
زمینِ کربلا پر عافیت کا آسماں اترے
مرے گلشن کے پیڑوں پر بہارِ جاوداں اترے
ہم اپنے کل کو گروی رکھ کے اتنے مطمئن کیوں ہیں
دعا ہے کاسۂ لب پر زرِ سود و زیاں اترے
مفاداتِ جدیدہ کے شبستانِ اذّیت میں
سکون و امن و راحت کی پرانی داستاں اترے
ہوا ساری خریدی جا چکی ہے سبز منڈی میں
دعا ہے خلدِ طیبہ کی ہوائے مہرباں اترے
نہیں ہے بوند پانی کی بھی دریائوں کے دامن میں
ہمارے قریۂ بے آب میں آبِ رواں اترے
عطا کر کامرانی کے عَلَم اُنؐ کے غلاموں کو
حرم کی پاسبانی کو حرم کا پاسباں اترے
اٹھا کر ہاتھ میری سر زمیں فریاد کرتی ہے
جو موسم بھی یہاں اترے وہ موسم گلفشاں اترے
دعا ہے ہر طرف امن و اماں کے پھول کھِل اٹھّیں
ستاروں سے بھرا ہو جس کا دامن وہ یہاں اترے
قلم ڈوبا رہے عشقِ محمدؐ کے سمندر میں
مرے مکتب کی تختی سے بھی حرفِ رائیگاں اترے
خدایا! تشنہ لب بچّے، کٹورے لے کے آئے ہیں
دعا ہے، ا برِ رحمت اب ہمارے درمیاں اترے
پرندے جاچکے ہیں دور، پتھر کے زمانے میں
دھنک، افلاک سے، یارب، پسِ وہم و گماں اترے
برہنہ سر کھڑی ہیں چاند کی کرنیں دریچوں میں
گلی کے موڑ پر اِمشب کرم کا سائباں اترے
مصائب کی ہے گٹھڑی میرے ہر بچّے کے ہاتھوں میں
مرے بچّوں کے مکتب میں کتابوں کی دکاں اترے
عدوئے حرفِ حق کے آنگنوں میں اب گریں پتھر
حصارِ شر کے دامن میں شبِ آہ و فغاں اترے
وطن کی سرحدوں پر سرخ آندھی کے لگے خیمے
سپاہِ آتش و آہن اُدھر بھی ناگہاں اترے
جو دہشت گرد گھس آئے ہیں میرے گھر کے آنگن میں
کبھی اُن کی بھی آنکھوں میں، شبِ آخر، دھواں اترے
گھروندے جل رہے ہیں، پر، گھٹا آکر نہیں برسی
چمن میں ہر پرندے کے لئے اک آشیاں اترے
ہوا نے جلتے خیموں میں کھلونے بھی جلا ڈالے
مرے معصوم بچوں کی ہنسی، یارب! کہاں اترے
حدیثِ کربلا لکھی گئی لوگوں کے چہروں پر
کفن پہنے ہوئے اوراق پر نطق و بیاں اترے
فضا میں بے یقینی کا دھواں پھیلا دیا کس نے
خدایا! آسمانوں سے یقیں کی کہکشاں اترے
دعا ہے ہر طرف امن و اماں کے پھول کِھل اٹھیں
ستاروں سے بھرا ہو جس کا دامن وہ یہاں اترے
ریاضؔ اپنے خدا سے التجا کرتے ہیں سب مل کر
امیرِ کارواں لے کر ابھی حکمِ اذاں اترے