دستِ قلم کو وصفِ صورت گری عطا کر- لامحدود (2017)
شاداب ساعتوں کو تُو دلکشی عطا کر
دستِ قلم کو وصفِ صورت گری عطا کر
کب سے حصارِ غم میں مَیں گن رہا ہوں سانسیں
پروردگارِ عالم! اب روشنی عطا کر
سر تو ازل سے تیرے در پر جھکا ہوا ہے
کشکولِ آرزو میں بھی عاجزی عطا کر
ہر عکس گردِ شب میں گم ہو چکا ہے مولا!
فضل و کرم سے اپنے رخشندگی عطا کر
حرفِ غلط رقم ہے مکتب کی تختیوں پر
تفہیمِ ناروا میں فرزانگی عطا کر
امید کا سویرا دم توڑنے لگا ہے
لمحاتِ جبرِ شب میں آشفتگی عطا کر
دونوں ہتھیلیوں پر خورشیدِ نو سجا دے
مردہ دلوں کو خوئے زندہ دلی عطا کر
چمکے مرے قلم کی قسمت کا بھی ستارا
اوراقِ جان و دل پر نعتِ نبیؐ عطا کر
آنگن میں میرے اتریں آسودگی کی پریاں
بچّوں کو ہر قدم پر تُو ہر خوشی عطا کر
چھوٹے سے ایک گھر کی تجھ سے دعا ہے مانگی
شہرِ نبیؐ کی مجھ کو روشن گلی عطا کر
محشر کے بعد بھی مَیں آبِ ثنا ہی مانگوں
عقبیٰ میں مجھ کو ایسی تشنہ لبی عطا کر