میرے ہونٹوں کے مصلّے پر بچھے حرفِ دعا- لامحدود (2017)
جب مری دم توڑتی سانسوں نے دی تجھ کو صدا
تیری رحمت کا درِ شفقت سرِ مقتل کھُلا
میرے خالق، میرے مالک اے مرے ربِّ کریم!
میرے اشکوں میں کھُلی رکھنا کتابِ التجا
آسماں والے کرم کی بارشیں رخصت نہ ہوں
وادیٔ لوح و قلم سے حمد کی اٹھّے گھٹا
سانس لینے کے لئے تازہ ہوا درکار ہے
کب سے ہے الجھی ہوئی میرے گلستاں کی فضا
التجا ہے تیرے محبوبِ مکرمؐ کے طفیل
میرے ہونٹوں کے مصلّے پر بچھے حرفِ دعا
مختصر عمرِ رواں کو عجز کا موسم ملے
کیا مرا جھوٹا تکبر، کیا مری جھوٹی انا
قریۂ جاں پر جلالِ پادشاہی ہے محیط
حمد کرتے ہیں تری کوہ و دمن، ارض و سما
ایک اک لمحہ تری دہلیز پر ہے سرنگوں
ایک اک ساعت بھی سجدہ ریز ہے میرے خدا!
ہم نے خود تاریخ کے چہرے پہ کالک ہے ملی
تلخ ہے یارب! ہمارے روز و شب کا ذائقہ
واپسی کا حکم ہے ہر اک جزیرے سے ہمیں
پھیلتا ہی جا رہا ہے بے بسی کا دائرہ
سر پہ اک اوہام کی تلوار ہے لٹکی ہوئی
ہر گلی میں ہر قدم پر موت کا ہے سامنا
اب لکیریں پیٹنے والوں میں ہوتا ہے شمار
ارتقا کے نام سے ہرگز نہیں ہم آشنا
یا خدا! میری لرزتی سی دعائیں ہوں قبول
کاغذی کشتی کو تُو امید کا ساحل دکھا
آگ میں لپٹی ہوئی ہیں گھر کی دیواریں ریاضؔ
اُس کی جانب دیکھتی ہے میرے آنگن کی ہوا