حرفِ دانش بھی تحریرِ مبہم میں ہے- لامحدود (2017)
یا خدا، یا خدا، یا خدا، یا خدا
ہر قدم پر ہے مطلوب تیری رضا
زندگی گریۂ شب کے عالم میں ہے
چشمِ پرنم مری شامِ ماتم میں ہے
حرفِ دانش بھی تحریرِ مبہم میں ہے
مجھ کو رستہ دکھا، مجھ کو رستہ دکھا
یاسیّت کے بھنور میں ہے کشتی مری
روشنی کب سے غاروں میں ہے جا چھپی
ہر طرف زخم خوردہ ہوا ماتمی
اشکِ تر میں ہیں میرے حروفِ دعا
ہر طرف خون ہے، آگ، بارود ہے
رقص میں آج ابلیسِ مردود ہے
ایک اک میری تدبیر بے سود ہے
اِس طرف کربلا، اُس طرف کربلا
کون حاجت روائی کرے گا مری
کون مشکل کشائی کرے گا مری
کون آخر بھلائی کرے گا مری
کون تیرے سوا، کون تیرے سوا
یا خدا، یا خدا، یہ مری بے بسی
دے رہی ہے دہائی ترے نام کی
رکھ سلامت قلمدان کی روشنی
دے وسیلہ مجھے اپنے محبوبؐ کا
تُو نے دی کلکِ آداب کو دلکشی
حرفِ ممنون ہے میری بھی شاعری
تیرا فرماں مجھے یاد ہے آج بھی
میری تخلیقِ اوّل کی کرنا ثنا
ہر طرف بھوک ہے، ظلم ہے ننگ ہے
زر کے جھوٹے خدائوں سے بھی جنگ ہے
آدمی کی خرد آج بھی دنگ ہے
یا خدا! اپنے بندوں کو دے حوصلہ
روشنی کا قلم یا خدا بھیج دے
پیرہن دے کے میری نوا بھیج دے
اپنی رحمت کی کالی گھٹا بھیج دے
اس قیامت میں ہے بس ترا آسرا
امنِ عالم کی، یارب! بشارت ملے
شہرِ مدحت کی مجھ کو سفارت ملے
حُبّ سرکارؐ کی بھی حرارت ملے
میرے اندر بھی ہے اک ہجومِ انا
اپنی مخلوق کا تُو ہے روزی رساں
حکم تیرے سے ہر سنگ ہے ضو فشاں
تیری مرضی کا پابند ہے آسماں
اذن تیرے سے چلتی ہے بادِ صبا