عظمتِ رفتہ کو بھی ڈھونڈوں تو مَیں ڈھونڈوں کہاں- لامحدود (2017)
اے خدائے مصطفی، کب تک مری آنکھوں میں نم
تیرے سائے سے ہے کب محروم دیوارِ حرم
عظمتِ رفتہ کو مَیں ڈھونڈوں بھی تو ڈھونڈوں کہاں
دفن ہے تاریخ کے مدفن میں سب جاہ و حشم
چومتی تھی جو بلندی میرے قدموں کو کبھی
اُس بلندی کی طرف اٹھتے نہیں میرے قدم
بے حسی نے سب بجھا ڈالے ہیں اندر کے چراغ
خوابِ غفلت سے بھی کیا بیدار ہوجائیں گے ہم
میرے مشکیزوں میں بھی اک بوند پانی کی نہیں
میرے دریائوں پہ برسے جھوم کر ا برِ کرم
قافلے والوں کو اب تو غیرت تیمور دے
ہر محاذِ زندگی پر ہیں نگوں اپنے عَلَم
زلزلوں کی زد میں ہیں کوہ و دمن، شام و سحر
کس نے رکھّے ہیں مرے شہرِ سیاست میں قدم
بے یقینی کی چلے گی سرخ آندھی کس طرف
اے خدائے مہرباں، شدت ہو بحرانوں کی کم
دھند کی دیوار کو توڑے گا خورشیدِ ہنر
لاکھ لکھّے داستانِ شام، اخبارِ عجم
ایک جاں ہو کر مرے اہلِ وطن آگے بڑھیں
بابِ نو زندہ عزائم کا ہو سینوں میں رقم
سرد خانوں سے نکل آئیں جوانوں کے ہجوم
آگ بن جائیں بھڑکتی، میرے اربابِ قلم
توڑ دیں ہر ایک سازش کا حصارِ آہنی
یا خدا رکھنا غلامانِ محمدؐ کا بھرم
اپنی خاکستر سے ہے امید ملت کو ریاضؔ
سرفروشی کی نئی تاریخ بھی ہو گی رقم