ہیں بندگی کی میرے مصلّے پہ تتلیاں- لامحدود (2017)
یارب! ترے کرم کا رہے سر پہ سائباں
کشتِ دعا میں پھول کھلاتی رہے زباں
جگنو ہیں، عاجزی کے سجود و قیام میں
ہیں بندگی کی، میرے مصلّے پہ تتلیاں
مہکی ہے آج بھی لبِ تشنہ پہ چاندنی
اتری ہے آج بھی مرے آنگن میں کہکشاں
اس کو نقوشِ پائے نبیؐ کا ملے سراغ
کھویا ہوا خلا میں ہے صدیوں سے کارواں
پھر عافیت کی سبز ہوائیں چلا کریں
ڈوبی ہوئی ہیں خوف کے پانی میں بستیاں
موسم خزاں کا کب سے ہے بستی میں خیمہ زن
پھولوں سے بھر دے آدم و حوّا کی جھولیاں
کب تک گرفتِ غم میں رہے گا چراغِ شب
کب تک رہے گا صبح کا منظر دھواں دھواں
تہذیب سر جھکائے کھڑی ہے زمین پر
چلتی ہیں ہر طرف ہوسِ زر کی آندھیاں
ہر موج خود کرے گی حفاظت مگر ہے شرط
حرفِ دعا بنیں کبھی کاغذ کی کشتیاں
جھک کر مری انا جہاں ہوتی ہے سر بلند
وہ صرف تیرا در ہے خداوندِ کُل جہاں
دے کر نبیؐ کا واسطہ مانگوں دعا، ریاضؔ
برسیں گی خوب آج بھی رحمت کی بدلیاں