ڈپریشن کے بعد ہوائے مدینہ سے ہمکلامی کا شرف- خلد سخن (2009)
ریاضؔ، میری حراست کے دن بھی کیا دن تھے
مَیں ایک قیدی تھا اپنی برہنہ سوچوں کا
بھٹک رہا تھا میں اپنے ہی من کے صحرا میں
لہو میں خوف کی لہریں اُترتی رہتی تھیں
مَیں خشک پتے کے مانند خود میں لرزاں تھا
نہ اعتماد کی کوئی سند تھی ہاتھوں میں
نہ اعتبار کی خوشبو تھی دل کی شاخوں پر
نہ حوصلے کی حرارت بدن کے اندر تھی
نہ ہمتوں کے ہتھیلی پہ جل رہے تھے چراغ
نہ دسترس میں تھی حرفِ سخن کی بینائی
نہ کوئی حرفِ دعا میرے تشنہ ہونٹوں پر
عجیب عالمِ حیرت تھا روز و شب پہ محیط
غبارِ خوف کے لشکر کھڑے تھے چاروں طرف
مَیں کس طلسم کے پانی کی برف لہروں میں
تمام نقش و نگارِ جمالِ ہستی کو
ڈبو رہا تھا، مگر کیوں؟ میں جانتا ہی نہ تھا
نئی صدی کا یہ پہلا برس قیامت تھا
نئی صدی کے یہ لمحے عجیب لمحے تھے
نئی صدی کا وہ لمحہ عظیم لمحہ تھا
کہ جس میں اسمِ محمدؐ کی خوشبوئیں مہکیں
کہ جس میں نعتِ پیمبرؐ کی کہکشاں بکھری
کہ جس میں نورِ مجسم کی نسبتیں جاگیں
کہ جس میں اشکِ مسلسل نے روشنی بانٹی
کہ جس میں گنبدِ خضرا کے عکس لہرائے
کہ جس میں عشق کی قندیل پھر جلی شب بھر
کہ جس میں سر پہ عمامہ بندھا غلامی کا
کہ جس میں ابرِ کرم ہمسفر رہا میرے
کہ جس میں روح کے گھاؤ بھی بھر گئے سارے
کہ جس میں ولولہ تازہ ملا تھا جینے کا
نئی صدی کا وہ لمحہ عظیم لمحہ تھا
ثنائے مرسلِ آخرؐ کے پھول کھِل اُٹھے
غبارِ وادیٔ بطحا کی چاندنی اُتری
جمالِ شہرِ خنک چشمِ تر میں روشن تھا
خیالِ خلدِ مدینہ کی سر پہ چادر تھی
ہر ایک سانس میں اسمِ نبیؐ منوّر تھا
غبارِ خوف کے لشکر نظر نہ آتے تھے
سکوں نصیب ہوا میرے قلبِ مضطر کو
درود پڑھتی ہوئی ساعتیں پلٹ آئیں
ہوائے شہرِ پیمبرؐ سے ہمکلام تھا مَیں
تمام نقش و نگارِ جمالِ ہستی بھی
نئے دنوں کے اُجالے سے ہمکنار ہوئے
فلک سے روشنی اُتری تھی میرے آنگن میں
بہارِ تازہ کی آمد تھی میرے گلشن میں