سکّے کرم کے عرشِ معلی سے بھی گرا- لامحدود (2017)
رحمت تری پہ میرا بھی حق ہے مرے خدا
گندم مرے بھی سوکھے ہوئے کھیت میں اگا
آسودگی کے لمحوں کو اذنِ سفر ملے
صدقہ مجھے بھی سیدِ عالمؐ کا کر عطا
ہاتھوں میں دے کدال مگر ربِ کائنات!
اٹھے ترے کرم کی افق سے ابھی گھٹا
دامانِ آرزو میں سجا موتیوں کے ہار
محرومیوں کے نقش در و بام سے مٹا
قاصد کی راہ دیکھتا رہتا ہوں رات دن
بھولا نہیں کبھی مجھے طیبہ کا راستہ
یارب! گھرا ہوا ہوں مصائب کے درمیاں
تو ہی کڑے دنوں میں بھی دیتا ہے حوصلہ
چاروں طرف مہیب چٹانیں ہیں بھوک کی
ناکام آرزوئوں کا پھیلا ہے سلسلہ
اشکوں سے ہے بھرا ہوا کشکولِ آرزو
سکّے کرم کے عرشِ معلی سے بھی گرا
مٹی کے ہی کھلونے ہوں بچّوں کے ہاتھ میں
سوئے ہوئے نصیب غریبوں کے بھی جگا
رہ رہ کے دیکھتا ہوں ترے آسمان کو
کشتی کے ارد گرد ہیں گردابِ ابتلا
ہیں کربلائے عصر کے گرد و غبار میں
آسودگی کے دن مرے بچّوں کو بھی دکھا
جھوٹے خدا کھڑے ہیں جھروکوں میں آج بھی
دیوار ان کے قصرِ انا کی کبھی گرا
یارب! ہے امتحان کے قابل کہاں ریاضؔ
اس کو تُو اپنے فضل و کرم کا دے آسرا