کوئی نہیں تو ماں کی دعائوں میں رکھ مجھے- لامحدود (2017)
لطف و عطا کی سبز عبائوں میں رکھ مجھے
امن و اماں کی نیلی فضائوں میں رکھ مجھے
جو میرے اشک ہائے ندامت کی ہوں سفیر
لب پر سسکتی ایسی نوائوں میں رکھ مجھے
فالج زدہ بدن پہ ہیں چھالے پڑے ہوئے
اپنے کرم کی کالی گھٹائوں میں رکھ مجھے
دونوں ہتھیلیوں میں ہے محرومیوں کی راکھ
میرے خدا تُو اپنی عطائوں میں رکھ مجھے
سوز و گداز دے مرے سجدوں میں یا خدا
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدائوں میں رکھ مجھے
شاداب ساعتوں کا مَیں کرتا رہوں سوال
بخشش کی، رحمتوں کی قبائوں میں رکھ مجھے
دنیا میں بھی عطا ہوں خنک موسموں کے رنگ
محشر کے دن بھی تُو گھنی چھائوں میں رکھ مجھے
تیرے بھرے جہاں میں مرا کوئی بھی نہیں
کوئی نہیں تُو ماں کی دعائوں میں رکھ مجھے
بے غیرتی کی بھیک پہ مَیں فاتحہ پڑھوں
خودداریوں کی زندہ انائوں میں رکھ مجھے
تیرے نبیؐ کے در پہ سلامی دیا کروں
طیبہ کی سمت جاتی ہوائوں میں رکھ مجھے
آداب حاضری کے مرے بس میں ہیں کہاں
یارب! حجاز کے کسی گائوں میں رکھ مجھے
مجھ کو بھی دے بصیریٔ خوش بخت کا قلم
آقائے محتشمؐ کی ردائوں میں رکھ مجھے
فقر و غنا کے دے مجھے اوصافِ سرمدی
مولا! نہ زر کے جھوٹے خدائوں میں رکھ مجھے
کب سے گھرا ہوں فتنہ و شر کے ہجوم میں
مظلومیت کی جملہ ندائوں میں رکھ مجھے
یارب! ریاضؔ عرض یہ کرتا ہے آج بھی
ہر حال میں تُو اپنی رضائوں میں رکھ مجھے