31 دسمبر 2001ء کی آخری ساعتوں میں ایک نعتیہ نظم- خلد سخن (2009)
بہت اُداس، حضورؐ، آپؐ کا رہا شاعر
نئی صدی کا یہ پہلا برس غضب کا تھا
کبھی گلاب کھلے اور کبھی ملے آنسو
کبھی بہار کا موسم رہا دریچوں میں
کبھی خزاں کے تسلط میں پیڑ تھے سارے
کبھی حیات پہ اِک بے بسی کا عالم تھا
کبھی گلاب سا چہرہ کفن میں لپٹا تھا
کبھی محیط تھی اِک دھند گھر کے منظر پر
غبار چھایا ہوا تھا، حروف مبہم تھے
حضورؐ، کابل و قندھار خوں میں ڈوبے ہیں
ہوا ہے حکم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
حضورؐ، دخترِ کشمیر سر برہنہ ہے
حضورؐ، ارضِ فلسطیں ہدف ہے قاتل کا
حضورؐ، اُمتِ بے بس درِ محبت پر
دعا کا ہاتھ میں کشکول لے کے آئی ہے
غبارِ جبرِ مسلسل میں ہے وطن میرا
وطن کی سبز منڈیروں پہ اَمن کے بادل
برس پڑیں تو ہمیں حوصلہ ملے تازہ
کہ ہر منڈیر پہ عزم و یقیں کے پرچم ہوں
حضورؐ، جرمِ ضعیفی سے اب رہائی ملے
مگر حضورؐ، تصدق میں آپؐ کے، پرسوں
کرم کے چاند ستاروں سے بھر گیا دامن
حضورؐ، حرفِ تشکر ہے میرے ہونٹوں پر
حضورؐ، خواب جو دیکھے ہیں میرے بچوں نے
وہ خواب پورے ہوں، تعبیر روشنی کی ملی
مَیں اپنی ذات کے مقتل میں یارسول اﷲ
کھڑا ہوں خوفِ مسلسل کے زرد موسم میں
حضورؐ، سجدے میں گر کر خدا سے مانگا ہے
نئے برس میں عزائم رہیں مرے زندہ
نئے برس کا یہ سورج یقیں کی خوشبو سے
ورق ورق پہ سجائے گلاب مدحت کے
جمالِ گنبدِ خضرا رہے دعاؤں میں
ثنا کے پھول مہکتے رہیں ہواؤں میں