کربلا کے بعد پھر ہے کربلا کا سامنا- لامحدود (2017)
لب بہ لب سجدے میں ہے حرفِ دعا
یا خدا! برسے مری بنجر زمینوں پر گھٹا
مستقل ٹھہرے مرے آنگن میں، یارب! روشنی
آخرِ شب جل رہا ہے اک چراغِ التجا
ہر طرف شامِ غریباں کے دھویں میں چشمِ تر
کربلا کے بعد پھر ہے کربلا کا سامنا
ہاتھ میرا کانپنے لگتا ہے اب، ربِّ قدیر!
لفظ کے باطن میں اترا ہے انوکھا خوف سا
کب سے صحرائوں میں حیرانی کے ہیں منظر کھُلے
میری کشتِ آرزو میں پھول مدحت کے کھِلا
میری کشتِ فکر میں توحید کا سورج اگے
مجھ کو ہے در پیش اندر کے سفر کا مرحلہ
اس صدی کی قتل گاہوں میں خداوندِ کریم!
امتِ سرکش کا لکھّا جا رہا ہے مرثیہ
دیکھتے ہیں لوگ اب کتنے جلاتے ہیں چراغ
چل پڑی ہے میری بستی میں ہوائے ناروا
وادیٔ بطحا کا موسم میرے گلشن میں رہے
یا چلے خلدِ مدینہ کی یہاں ٹھنڈی ہوا
مغفرت کے پھول میری قبر پر کھلتے رہیں
یا خدا! میرے خدا، میرے پیمبرؐ کے خدا
تیری رحمت پھول برسائے سرِ شام و سحر
ملتجی ہے تیری چوکھٹ پر ریاضِؔ بے نوا