جو مشکیزوں میں پانی ہے اُسے آبِ شفا کر دے- لامحدود (2017)
کرم کر دے، عطا کر دے، دعائوں کو دوا کر دے
جو مشکیزوں میں پانی ہے اُسے آبِ شفا کر دے
حصارِ ابرِ رحمت میں مرے بچّوں کو رکھ مولا!
مری منت سماجت کو کتابِ التجا کر دے
مرے مشکل کُشا! آسان کر دے مشکلیں میری
مرے حاجت روا! ہر قرض میرا بھی ادا کر دے
مجھے آسودہ لمحوں کی بشارت، یا خدا، دے کر
شبِ غم کو ہمیشہ کے لئے مجھ سے جدا کر دے
چلے باد بہاری عافیت کی لے کے قندیلیں
در و دیوارِ مقتل کو تُو اک برگِ حنا کر دے
چمن میں خوشبوئوں کو رقص کرنے کی اجازت ہو
ہوا کے سر پھرے جھونکوں کو تُو بادِ صبا کر دے
کروڑوں حمد کے جگنو اڑیں ہر سانس میں میری
مری ہر آرزو کو، یا خدا، اپنی رضا کر دے
اگا ہاتھوں پہ سورج آپؐ کی مدحت نگاری کا
مرے ہر لفظ کو نعتِ محمدؐ مصطفی کر دے
وسیلہ لے کے آیا ہوں ترے محبوبؐ کا یارب!
مری اِن التجائوں کو پر و بالِ ہما کر دے
رہے جس میں ہمیشہ ایک ہی موسم محبت کا
مرے افکارِ نو کو دامنِ ارض و سما کر دے
مجھے سرکارؐ کے دامانِ رحمت کی ہوائیں دے
مرے اک اک عمل کو سنتِ خیرالوریٰ کر دے
تمازت دھوپ کی پگھلا رہی ہے میری سوچوں کو
مجھے شاداب لمحوں کا تُو ہر موسم عطا کر دے
خدائے مہرباں! اپنی ربوبیت کے صدقے میں
زمیں و آسماں میں ہر کسی کا تُو بھلا کر دے
ہوائے فتنہ و شر کو بنا دے رزق دوزخ کا
مرے اِس دور کے چنگیزیوں کو نقشِ پا کر دے
ابھی قانون جنگل کا ہی رائج بستیوں میں ہے
نظامِ عدل کو ہر ہر قدم پر لب کشا کر دے
غبارِ خوف و وحشت کو اٹھا لے آسمانوں پر
بہارِ امن کے سب موسموں کی انتہا کر دے
ہوئے ہیں مرتکب جرمِ ضعیفی کے مگر یارب!
ہمارے ایک اک آنسو کو سامانِ بقا کر دے
مری بستی کے ہر آنگن میں بچوں کو کھلونے دے
مری بستی کے ہر آنگن سے دکھ کا انخلا کر دے
جلا دے خشک سالی کے تنے خیموں کو بستی میں
کوئی موسم بھی ہے، شاخِ برہنہ کو ہرا کر دے
خدائے علم و دانش کے کرم کا شکر واجب ہے
ریاضؔ اپنے قلم کو تا ابد وقفِ ثنا کر دے