تصدق- خلد سخن (2009)

ازل سے ورطہء حیرت میں آسماں بھی ہے

یہ پوچھتا تھا ہواؤں کو روک کر امشب
زمیں کو چن کے، بھلا کیوں خدائے واحد نے
غلاف سبز درختوں کا اس کو پہنایا
ردائے نور سے ڈھانپا گیا بدن اس کا
تمام چاند ستارے کریں سلام اس کو
ہر ایک شاخ پہ کھلتا ہے رتجگوں کا گلاب
فساد و فتنہ و شر بھی زمیں کے اندر ہے
مگر یہ کیسا تقدس ہے اس کے چہرے پر
زمیں کو مرکزِ انوار کیوں ہے ٹھہرایا
بڑے ادب سے زمیں نے کہا فلک بھائی
یہ سارا حسن تصدق ہے میرے آقاؐ کا
سحاب، پھول، دھنک، روشنی، ہوا، شبنم
مرے حضورؐ کے نعلین کی عطائیں ہیں
ملا ہے دائمی اعزاز اس لیے کہ مجھے

رسولِ پاکؐ کو بانہوں میں اپنی لینا تھا
قدم کو، سیدِ عالمؐ کے، بوسہ دینا تھا