پھول لاتی ہے ہمیشہ آخرِ شب کی دعا- کشکول آرزو (2002)
یا خدا! شہرِ قلم میں ہو بہاروں کا ہجوم
آسمانوں سے ثنا کرتے ہوئے اتریں نجوم
یا خدا! بے داغ سجدوں کی فراوانی ملے
تا ابد ایمان کے سورج کی تابانی ملے
یا خدا! اندر کا موسم ہر گھڑی ٹھنڈا رہے
کشتِ جاں پر جھوم کر ابرِ کرم برسا کرے
یا خدا! میٹھی کھجوروں کے مجھے باغات دے
پیکرِ جو د و سخا کے نام کی خیرات دے
شہرِ طیبہ کے در و دیوار کو میرا سلام
جن سے ہوتا ہے پرندہ التجا کا ہمکلام
میری نسلوں کو ملے حُبِّ رسولِ آخری
میرے ہر اک خواب کی تعبیر ہو خلدِ نبیؐ
میرا ہر آنسو اٹھائے پرچمِ شامِ درود
ڈوب جائے کیف کے گہرے سمندر میں وجود
آرزوئوں کے گھنے جنگل میں بھٹکوں کب تلک
خشک پتوں کی طرح ہر سمت بکھروں کب تلک
گٹھڑیاں سر پر گناہوں کی اٹھا لایا ہوں مَیں
دونوں ہاتھوں پر خطائوں کو سجا لایا ہوں مَیں
ہر خطا سے در گذر فرما مرے ربِ قدیر!
تا ابد زندہ و پائندہ رہے میرا ضمیر
لکھتا رہتا ہوں مَیں ہونٹوں پر حروفِ التجا
بعدِ محشر بھی ثنا گوئی کا منصب ہو عطا
کوئی لمحہ تیری رحمت سے نہیں خالی رہا
پھول لاتی ہے ہمیشہ آخرِ شب کی دعا