یا الہٰی! ان گنت امراض میں ہوں مبتلا- لامحدود (2017)
مجھ کو دے آبِ سخن، آبِ کرم، آبِ شفا
لوٹ کر لائے عطا کے پھول میری ہر دعا
یا خدا! عمرِ رواں کی کھول دے گرہیں تمام
تلخ ہوتا جا رہا ہے زندگی کا ذائقہ
رکھ مرے زخموں پہ مرہم اے خدائے مہرباں!
کرب کے عالم میں دے مجھ کو مسلسل حوصلہ
ساتھ میرے ہے مصلّے پر دعائوں کا ہجوم
سجدہ ریزی کی مجھے توفیق دے میرے خدا!
تُو نے ہی مجھ کو بنایا آپؐ کا مدحت نگار
میرے آنگن میں مدینے کی چلے ٹھنڈی ہوا
کشتیٔ امت کبھی طیبہ کے ساحل پر رکے
اس کی ہر اک سانس میں شامل ہے اس کی التجا
ا برِ رحمت جھوم کر اٹھّے درِ سرکارؐ سے
خوب برسے آج بھی تشنہ زمینوں پر گھٹا
نقشِ پائے مصطفی ؐ کی یا خدا! خیرات دے
مَیں غریبِ شہر ہوں اور بے بسی کی انتہا
یا محمدؐ مصطفی صلِّ علیٰ کہتے ہوئے
مَیں لپٹ جائوں گا قدموں سے ہوا جب سامنا
زندگی کے آخری دن حمد مَیں لکھّوں تری
کب تلک لکھّوں کتابِ روز و شب کا حاشیہ
برف زاروں میں اتر آئیں نئے سورج کئی
روح کا زخمی پرندہ کب سے ہے بھیگا ہوا
میری مٹی میں کِھلیں لاکھوں شفا یابی کے پھول
یا الہٰی! ان گنت امراض میں ہوں مبتلا
عاجز و مسکین سا بندہ ہوں اے ربِّ کریم!
کیا مرا زورِ قلم، زورِ سخن، زورِ انا
جس کے دامن میں کھِلے تھے پھول مدحت کے ریاضؔ
پھر اُسی نقطے سے کھینچیں گے سخن کا دائرہ