ادا حرفِ تشکر ہو لبِ تشنہ، مقدر کا- خلد سخن (2009)
ادا حرفِ تشکر ہو لبِ تشنہ، مقدّر کا
قصیدہ لکھ رہا ہوں آج بھی اپنے پیمبرؐ کا
غزل بھی آئنہ خانے میں روشن ہے کہ بطحا سے
اُٹھا لائی ہے عکسِ دلربا روئے منور کا
زباں اس کی ازل سے ہی ثنا کے پھول چنتی ہے
مقام اوجِ ثریا سے بھی اونچا ہے سخنور کا
چھلک پڑتی ہیں آنکھیں خودبخود ذکرِ محمدؐ پر
میں سینے میں نہیں رکھتا دلِ بے تاب پتھر کا
ورق کے آستانے پر قلم سجدے میں رہتا ہے
مقدر کیا مقدر ہے صبا، مردِ قلندر کا
الٰہی! عمر ساری بیت جائے آنے جانے میں
نہ نقشہ کھینچ پاؤں میں کبھی شہرِ مصوَّر کا
ستارے جھلملا اُٹھتے ہیں میری چشمِ حیرت میں
خیال آتا ہے جب شہرِ نبیؐ کی خاکِ انور کا
کہاں تک ہو بیاں حالِ زبوں آقاؐ سرِ مقتل
منافق ساعتوں کے اس بڑے گہرے سمندر کا
کٹھن ہے مرحلہ درپیش زرداروں کی بستی میں
بھرم سرکارؐ رہ جائے کسی نوکر کے نوکر کا
تلاشِ امن میں نکلے ہوؤں کو بھی نظر آئے
جمالِ سرمدی اب گنبدِ خضرا کے منظر کا
ریاضِؔ بے نوا طالب ہے استقلال کا کب سے
بڑھے کچھ حوصلہ ہارے ہوئے اس کے بھی لشکر کا