حمدِ ربِّجلیل: تُو خدائے روز و شب ہے تو خدائے ذوالجلال- تحدیث نعمت (2015)
تُو خدائے روز و شب ہَے تُو خدائے ذُوالجلال
نَے کوئی ہمسر ترا ہَے نَے کوئی تیری مثال
عقل ناقص ہَے ترا ادراک کر سکتی نہیں
گم ہَے حیرت کے سمندر میں دبستانِ خیال
صاحبِ لولاکؐ ہونے کا شَرَف بخشا جنہیں
وہؐ ترے محبوبؐ ہیں وہؐ آمنہ بی بیؓ کے لالؐ
تُو مرا حاجت روا ہے، تُو مرا مشکل کُشا
میرے بچّوں کے مقدّر میں بھی ہو رزقِ حلال
خوشبوؤں کو رَقص کرنے کی اجازت عام ہَے
سرخ پھولوں سے گلستاں کے بھرے رہتے ہیں تھال
دے مجھے افکارِ تازہ کے ہزاروں آفتاب
دے فضاؤں میں کبھی پرواز کا جاہ و جلال
وادیٔ تشکیک کی جانب قدم اٹھتے نہیں
مَیں نے ہونٹوں پر مگر لکھّے ہیں کتنے ہی سوال
تُو نے بخشا ہَے قلم کو روشنی کا پیرہن
ذرّے ذرّے میں تری قدرت کا ہَے حُسن و جمال
عزمِ نو کا چاند نکلے وسعتِ افلاک میں
آج بھی ہَے اُمّتِ مظلوم زخموں سے نڈھال
سرکشی پر آج آمادہ ہَے فرعونِ جدید
اپنے بندوں کو دکھا یارب! تُو راہِ اعتدال
اپنے بندوں کے سروں پر دے تحفّظ کی ردا
اپنے بندوں کے مقدّر کو ستاروں سے اُجال
اپنے بندوں پر کرم کی بارشیں دن رات کر
اپنے بندوں کو حصارِ ظلمتِ شب سے نکال
مسترد کرتے ہیں ہم جھوٹے خداؤں کا وجود
ان کی قسمت میں رقم ہَے تا ابد شامِ زوال
بند ہَے بابِ تلاشِ عظمتِ رفتہ، مگر
التجا ہے رکھ مرے ملّی تشخّص کو بحال
ہر گلی کے موڑ پر ہَے زندہ لاشوں کا ہجوم
بسیتوں میں پڑ گیا ہَے زندہ انسانوں کا کال
یہ ریاضؔ اک لفظ بھی لکھنے کے کب قابل ہوا
یہ فقط تیرے کرم کے ہَے تسَلسُل کا کمال