اوڑھ لی کلکِ ادب نے خوشبوئے طیبہ کی شال- تحدیث نعمت (2015)
اوڑھ لی کلکِ ادب نے خوشبوئے طیبہ کی شال
دیدۂ تر کے مصلّے پر ہَے سجدے میں خیال
کب سے ہیں کشتِ ثنا میں وادیٔ بطحا کے رنگ
میرے دستِ شوق میں ہَے باوضو پھولوں کا تھال
آپؐ مخلوقِ خدا میں سب سے افضل ہیں حضورؐ
عرش پر نہ فرش پر ہَے دوسری کوئی مثال
آپؐ کے دستِ مبارک میں شفاعت کے گلاب
آپؐ کے دستِ عطا میں شفقتوں کے ہیں گلال
ہر طرف ہَے آپؐ کی رحمت کا رم جھم سلسلہ
ہر طرف پھیلا ہوا ہَے آپؐ کا حسن و جمال
آپؐ صدیقؓ و عمرؓ، عثماںؓ، علیؓ، کے رہنما
سیّدیؐ یا مرشدیؐ ہیں آپؐ آقائے بلالؓ
اپنے محبوبِ مکرّمؐ کے غلاموں پر کرم،
ہم صدی کے اوّلیں عشروں میں ہیں غم سے نڈھال
بن چکے ہیں قصۂ پارینہ بنیادی حقوق
پڑ گیا ہَے، یاخدا، دنیا میں انسانوں کا کال
امتِ سرکارؐ کی ہر اک خطا سے درگذر
امتِ سرکارؐ کو قعرِ مذلت سے نکال
در بدر پھرتے ہیں لیکن بھیک بھی ملتی نہیں
لوٹ آئے دورِ زندہ کا وہی حسن و جمال
کب ملے گی عظمتِ رفتہ کی صبحوں کی نوید
کب افق کی گھاٹیوں میں ہو گی گم شامِ زوال
کب مقفل خانقاہوں کی ملیں گی کنجیاں
کب تصوّف کے افق پر جگمگائے گا ہلال
گمرہی کی بند گلیوں میں مقیّد ہَے بشر
ذہنِ انسانی میں ہیں الجھے ہوئے کتنے سوال
ان دنوں بپھرے ہوئے پانی ہیں کھیتوں میں حضورؐ
دیں، دعا دے کر، کسی دستِ ہنروَر میں کدال
مسخ کر ڈالا ہَے ہم نے اپنا چہرہ خود حضورؐ
کفر کہتا ہَے مسلمانوں کا ہَے ماضی نہ حال
بھول کر بھی حق ادائی کا کرے دعویٰ ریاضؔ
کیا کسی ناچیز شاعر کے قلم کی ہَے مجال؟