تحدیثِ نعمت: مدینے کے گلی کوچوں کی رفعت دیکھ آیا ہو- تحدیث نعمت (2015)
مدینے کے گلی کوچوں کی رفعت دیکھ آیا ہوں
مَیں اپنی جاگتی آنکھوں سے جنت دیکھ آیا ہوں
سلامی دے کے آیا ہوں در و دیوارِ طیبہ کو
برستی آسماں سے اُس کی رحمت دیکھ آیا ہوں
فرشتوں کے پروں کی سبز چھاؤں میں ہیں دن گذرے
خدائے برگزیدہ کی مَیں حکمت دیکھ آیا ہوں
مدینے کی ہواؤں میں، مدینے کی فضاؤں میں
محبت ہی محبت ہی محبت دیکھ آیا ہوں
ادب گاہِ مواجھہ میں وہ رم جھم اشکِ پیہم کی
غلامانِ محمدؐ کی مَیں قسمت دیکھ آیا ہوں
قلم کی مضطرب آنکھیں تلاشِ نقشِ پا میں ہیں
مَیں اس کی مضطرب آنکھوں کی حیرت دیکھ آیا ہوں
مری ہر شاخ پر کھِلتی رہیں کلیاں غلامی کی
مَیں اپنی کشتِ ایماں کی بھی نسبت دیکھ آیا ہوں
کرو تم پیروی میرے نبیؐ کی اے زمیں والو!
خدائے آسماں کی مَیں مشیّت دیکھ آیا ہوں
درِ سرکارؐ پر عرضِ تمنا کی لئے حسرت
شبِ آخر کے بھی اشکِ ندامت دیکھ آیا ہوں
جبینِ وقت پر لکھّی صداقت کی اذانوں میں
اترتی آسمانوں سے مَیں خِلعت دیکھ آیا ہوں
جوارِ گنبدِ خضرا میں ہر لمحہ جو بَٹتی ہَے
غریبوں، بے نواؤں کی وہ دولت دیکھ آیا ہوں
ورق تاریخ کے الٹے ہیں، طائف میں، ہواؤں نے
عدوئے مصطفیٰؐ کی آمریت دیکھ آیا ہوں
مدینے کے در و دیوار سے لگ لگ کے روتا تھا
مَیں شاعر کے تڑپنے کی وہ حالت دیکھ آیا ہوں
چراغِ نعت روشن ہیں مدینے کی فضاؤں میں
مَیں اپنی کلکِ مدحت کی بھی قیمت دیکھ آیا ہوں
مدینے کا مدینہ محفلِ میلاد ہَے اُنؐ کی
مَیں خورشیدِ ثنا گوئی کی صورت دیکھ آیا ہوں
ہر اِک سائل کے ہاتھوں میں کرم کے پھول ہوتے ہیں
مَیں محوِ التجا، قدموں میں، خلقت دیکھ آیا ہوں
ہواؤں کے بھی لب پر ہَے ثنائے مرسلِ آخرؐ
فضائے وادیٔ بطحا کی عظمت دیکھ آیا ہوں
نبیؐ کے چار یاروں کا مقدر کیا مقدر ہَے
تصوُّر میں مَیں پھر عہدِ رسالت دیکھ آیا ہوں
نبی جیؐ کے قدم چومے تو تارے ٹوٹ کر برسے
عرب کے ذرّے ذرّے کی مَیں حُرمت دیکھ آیا ہوں
زمیں پر ایک بھی آنسو کبھی گرنے نہیں دیتی
مَیں اپنی چشمِ پُرنم کی بصیرت دیکھ آیا ہوں
مجھے اب تک نہیں بھولا پذیرائی کا وہ موسم
نبیؐ کے چاہنے والوں کی عزت دیکھ آیا ہوں
کھجوریں بانٹنا سرکارؐ کے مہمان خانوں میں
مدینے کے حسیں بچّوں کی عادت دیکھ آیا ہوں
پھلوں کا رزق ملتا ہَے گداؤں بے نواؤں کو
سرِ ریگِ رواں اللہ کی قدرت دیکھ آیا ہوں
کریں گے فیصلے ہم گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں
عدالت کی عدالت کی عدالت دیکھ آیا ہوں
کسی کی رہنمائی کی ضرورت ہی نہیں باقی
ابد تک نَسلِ آدم کی قیادت دیکھ آیا ہوں
مدینے کی فضاؤں میں کبوتر رَقص کرتے ہیں
مودٔب ان پرندوں کی مؤدت دیکھ آیا ہوں
مری کشتی کو گردابِ انا کیا لے کے ڈوبے گا
کنارے پر خیابانِ شریعت دیکھ آیا ہوں
زمانے بھر کی تلچھٹ جس کے رہتی ہَے تعاقب میں
حرم میں اپنے آقاؐ کی وہ اُمّت دیکھ آیا ہوں
سلیقہ ہی سلیقہ ہَے، قرینہ ہی قرینہ ہے
چمن زارِ مدینہ کی میں نُدرت دیکھ آیا ہوں
محمد مصطفیٰؐ کا ہَے وسیلہ درمیاں یارب!
مَیں جنت بھی مدینے کی بدولت دیکھ آیا ہوں
مَیں ہر زائر کے اشکوں کی اٹھا لایا ہوں تصویریں
حروفِ التجا کی مَیں بلاغت دیکھ آیا ہوں
نصابِ مدحتِ سرکارِ دو عالمؐ مکمل ہَے
مَیں نعتِ مصطفیٰؐ کی ہر علامت دیکھ آیا ہوں
جہاں والوں نے پھر بارود کی چادر بچھائی ہے
اُفق پر امن کی لکھّی بشارت دیکھ آیا ہوں
مرا بھی نام شامل ہَے نبیؐ کے جاں نثاروں میں
حروفِ عجز کی مَیں شان و شوکت دیکھ آیا ہوں
قلم کو سجدہ ریزی سے نہ تھی فرصت مدینے میں
ورق پر اس کا بھی ذوقِ عبادت دیکھ آیا ہوں
نبیؐ جی، آپؐ کے کردار کی عظمت کے سائے میں
عزیزانِ مدینہ کی بھی سیرت دیکھ آیا ہوں
مصلّے پر سجودِ آخرِ شب کی تھی رعنائی،
گروہِ پاکبازاں کی ثقافت دیکھ آیا ہوں
رسولِ پاکؐ ہیں نائب خداوندِ مقدّس کے
مَیں پیرانِ حرم کی بھی طریقت دیکھ آیا ہوں
مرے دل کی بھی کشتی تیرتی پھرتی تھی ہر جانب
مدینے میں مَیں سیلِ نور و نکہت دیکھ آیا ہوں
روابط میں تسَلسُل سے انہیؐ کا ذکر آتا ہے
سفیرانِ محمدؐ کی سفارت دیکھ آیا ہوں
مَیں گمراہی کی زنجیروں سے خود کو باندھ لیتا تھا
خدا کا شکر ہے، نورِ ہدایت دیکھ آیا ہوں
مَیں اپنی خوش نصیبی کی بلائیں لیتا رہتا ہوں
فرائض کے علاوہ شہرِ سنت دیکھ آیا ہوں
جوارِ گنبدِ خضرا میں روزِ حشر تک اپنی
ریاضِ خوش نوا جائے سکونت دیکھ آیا ہوں