آپؐ کی کون و مکاں میں جلوہ فرمائی کہ بس- تحدیث نعمت (2015)
آپؐ کی کون و مکاں میں جلوہ فرمائی کہ بس!
ہر قدم پر سرمدی پھولوں کی رعنائی کہ بس!
اپنے محبوبِ مکرّمؐ کو خدائے پاک نے
خِلعتِ انوارِ عظمت ایسی پہنائی کہ بس!
گرم آنسو مَیں نے رکھّے تھے صبا کے ہاتھ پر
وہ مدینے سے مجھے ٹھنڈی ہوا آئی کہ بس!
وہ خدا ہَے اور آقاؐ اُس کی تخلیقِ عظیم
فضل ربیّ سے مگر ہَے ایسی یکتائی کہ بس!
کیا مسلسل ڈوبتے رہنے میں ہَے کیفِ دوام
عشق کے نیلے سمندر کی ہَے گہرائی کہ بس!
آج تک زادِ سفر مَیں نے کبھی مانگا نہیں
اس قدر حُبِّ نبیؐ میں ہَے توانائی کہ بس!
میری نظریں گنبدِ خضرا سے ہم آغوش ہیں
یوں مسلسل رقص میں ہَے میری بینائی کہ بس!
واسطہ دے کر نبیؐ کے نام کا، مانگی دعا
آسماں نے بارشِ رحمت وہ برسائی کہ بس!
ایک دیوانہ جسے پتھر ہی پڑتے تھے یہاں
وہ مدینے میں ملی اُس کو پذیرائی کہ بس!
میرے سامانِ سفر کو روک رکھّا ہَے وہیں
ذرّے ذرّے سے ہے میری وہ شناسائی کہ بس!
خُلد میں بھی یاد آتا ہَے مجھے شہرِ حضورؐ
اِس قدر ہوں اُنؐ کی گلیوں کا تمنائی کہ بس!
پیش کر پایا نہ تھا اُنؐ کا وسیلہ مَیں ابھی
ہر تمنا میرے دل کی ایسے بر آئی کہ بس!
میرے اشکوں سے وضو کرتے رہے لوح و قلم
نعت وہ اللہ نے ہے مجھ سے لکھوائی کہ بس!
میرے اللہ نے مری سب لغزشوں کے باوجود
نعت کے صدقے میں دی ایسی پذیرائی کہ بس!
لمحہ لمحہ سانس لیتا ہوں مواجھے میں، ریاضؔ
وہ عظیم الشان ہَے میری یہ تنہائی کہ بس!
صبحِ میلاد النبیؐ کی ساعتِ دلکش، ریاضؔ
مرحبا، یا سیّدیؐ کہہ کر وہ لہرائی کہ بس!
اہلِ مَحشر نے کہا مقطع مکرّر ہو ریاضؔ
روزِ مَحشر بھی ہوئی وہ عزت افزائی کہ بس!