راستہ مَیں نے طیبہ کا پوچھا مگر سامنے آکے جنت کھڑی ہو گئی- تحدیث نعمت (2015)
راستہ مَیں نے طیبہ کا پوچھا مگر سامنے آکے جنت کھڑی ہو
گئی
میری پلکوں پہ تارے چمکنے لگے، ہر طرف روشنی روشنی ہو گئی
خوش نصیبی مری ہمسفر ہو گئی، میرے آنگن میں روشن سحر ہو
گئی
شامِ غم دیکھنا مختصر ہو گئی، قیمتی کس قدر زندگی ہو گئی
میرے الفاط سجدے میں سب گر پڑے، رقص میں میرے لوح و قلم
آ گئے
خوشبوؤں سے مرا گھر مہکنے لگا، شام میری بھی پھولوں بھری ہو گئی
نعت خوانی کا پرچم سرِ شب کُھلا، عمر بھر یا خدا، یہ رہے
رتجگا
میری قسمت کا تارا بلندی پہ ہَے، میری شاخِ طلب بھی ہری ہو گئی
ارضِ مشرق سے سورج اُبھرنے لگا، چومنے اُنؐ کی چوکھٹ اترنے
لگا
میرے بچّوں نے صلِّ علیٰ جب کہا، شب کی کا فور تیرہ شبی ہو گئی
تتلیاں رنگ اپنے لٹانے لگیں، بام و در کو ہوائیں سجانے لگیں
پھر صدائیں درودوں کی آنے لگیں، چاندنی سے منورّ گلی ہو گئی
بادِ گلشن کے لب پہ تھی نعتِ نبیؐ میری پلکوں پہ تھی آنسوؤں
کی نمی
جب نبی جیؐ کا اسمِ گرامی لیا، دور ہونٹوں کی سب تشنگی ہو گئی
قافلہ سوئے طیبہ رواں ہو گیا، ہر قدم میرا بھی کہکشاں ہو
گیا
لمحہ لمحہ مرا گلستاں ہو گیا، اُنؐ کی رحمت مری ہتھکڑی ہو گئی
مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ، مجتبیٰؐ، مجتبیٰؐ، مجتبیٰؐ،
مجتبیٰؐ!
مرتضےٰؐ مرتضےٰؐ مرتضےٰؐ مرتضےٰؐ، خود بخود آج نعتِ نبیؐ ہو گئی
مَیں مصائب کی خونی بلاؤں میں تھا مَیں مسائل کی جلتی ہواؤں
میں تھا
اُنؐ کی مدحت سرائی کے فیضان سے، میری عمرِ رواں پھول سی ہو گئی
میرے سینے پہ ہَے عکسِ نقشِ قدم، یہ کرم میری سرکارؐ کا
ہَے کرم
کیا کہوں ہمسفر! شہرِ اقبالؒ میں نعت کہتے ہوئے حاضری ہو گئی
مَیں درودوں کے گجرے بناتا رہا، وہ بڑے غور سے مجھ کو دیکھا
کئے
شہرِ طیبہ کے معصوم بچوّں سے بھی رفتہ رفتہ مری دوستی ہو گئی
میرا سب کچھ مدینے کی گلیوں میں ہَے، میٹھی میٹھی سی مصری
کی ڈلیوں میں ہے
تذکرہ چھڑ گیا شہرِ سرکارؐ کا، شدتِ رنج و غم میں کمی ہو گئی
الوداع الوداع اے رسولِؐ خدا، الوداع الوداع اے حبیبِؐ خدا
عمر شاید وفا نہ کرے آئندہ، حاضری میری بھی آخری ہو گئی
ہر ورق زندگی کا مصَّور ہوا، مَیں ثنائے بنیؐ پہ مقرر ہوا
بعد اس کے ریاضؔ اور کیا چاہیے، ہَے مسلماں مری شاعری ہو گئی