سلام علیک (2004)
’’سلامٌ علیک‘‘ ریاض کے نعتیہ کلام کا چھٹا مجموعہ:’’ان ملائکہ کے نام، جو درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں لے کر، صبح و شام گنبدِ خضرا کے جوارِ کرم میں اُترتے ہیں اور آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ عطا پر حضوری کی سرشاریوں سے ہم کنار ہونے کا شرفِ عظیم حاصل کرتے ہیں۔‘‘ ریاض کے نزدیک ’’سلامٌ علیک‘‘ اکیسویں صدی کی پہلی طویل نعتیہ نظم ہے جسے اُردو زبان کا ایک طویل نعتیہ منظومہ یاقصیدہ بھی کہہ سکتے ہیں جو چھ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ریاضؔ نے اس میں ابتداء میں ایک منفرد و یکتا شعر کہنے کی روایت کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔ مصرعے میں چشم نم کو ’’فضائے طیبہ‘‘ کی نازکی کا احساس دلایا ہے۔ دوسرے مصرعے میں مدینہ منوّرہ کا تقدس اور درودوں کے آداب سکھائے ہیں۔ قدرت شعری اور رنگِ مدحت کا دلربا انداز! کیا کہنے: برستی آنکھو! خیال رکھنا بہت ہے نازک فضائے طیبہ مدینہ آئے تو چپکے چپکے درود پڑھ کر سلام کرنا جو کام اللہ ربّ العزت جلَّ جلالہٗ کے پاک نام سے یا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے شروع نہیں کیا جائے گا وہ نامکمل اور خیروبرکت سے دور رہے گا۔ ریاضؔ حسین چودھری اس حسین و جمیل کلّیہ سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اپنی ہر کتاب کو حمد و ثنا کے نور سے مزّین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نعتیہ قصیدہ کے پہلے پانچ بند اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے شاہد ہیں۔ ریاض نے بھی قرانِ کریم کے معانی اور مفاہیم کو اپنے پیشِ نظر رکھا ہے۔ قلم سر جھکائے ورق کی جبیں پر سجائے دیے شب کو قصرِ یقیں پر حکومت ہے اس کی فلک پر زمیں پر خدا آپ کا سب سے اعلیٰ و بالا سلامٌ علیک، سلامٌ علیک! سلامٌ علیک، سلامٌ علیک! قلم کی نوک، ورق کی جبیں، شب کے چراغ اور یقیں کے قصر یعنی ابتدائی تین مصرعے اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور ربوبیت کے گواہ ہیں جب کہ آخر ی تین مصرعے نغماتِ درود و سلام سے مزین ہیں۔ پہلے پانچ بندوں میں حمد و ثنا کا التزام ہے۔ جب کہ اس نعتیہ قصیدہ کا چھٹا بند تعریف و توصیفِ ثنائے مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کا حُسنِ آغاز ہے۔ تصوّر میں سرکار در پر کھڑا ہوں سمٹ کر نگاہوں میں بھی آگیا ہوں حضور آپ کی نعت لکھنے لگا ہوں عطا کیجیے کوئی حرفِ منزّہ سلامٌ علیک، سلامٌ علیک! سلامٌ علیک، سلامٌ علیک! شاعر نے تصوّر جما کر درِ سرکار پر رسائی حاصل کی ہے۔ اپنی تمام توانائیوں کو بھی یکجا کرلیا ہے۔ شاعر حضور کی نعت لکھنے کا ملتجی ہو کر حرف منزہ کا متلاشی ہے۔ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کے بعد پھر دوسرا اور تیسرا بند مدح سرکار کے موتی رول رہا ہے۔ شاعر کو نعت کے طفیل جذبات کی شدت اور الفاظ کی ندرت حاصل ہے۔