پیش لفظ - سلام علیک (2004)
ریاض حسین چودھری اُردو نعت گوئی کا معتبر و مانوس نام ہے لیکن یہ مدحت رسول ﷺ کی لامحدود فہرست کا ایک خوشگوار و خوشنما اور زندہ و پائندہ نام بھی رہے گا۔ انہوں نے نعت گوئی و مدحت نبوی ﷺ کو ایک مسلک، عقیدت اور ضمیر و ایمان کا معاملہ سمجھ کر اپنایا ہے اور اردو نعت گوئی میں ایک نہایت وقیع اور ممتاز مرتبہ پالیا ہے۔ وہ اپنے پانچ نعتیہ مجموعوں سے دامنِ اردو کو پہلے ہی مالا مال کر چکے ہیں اور اب اپنے چھٹے نعتیہ دیوان سے جبینِ اردو کو سجانے لگے ہیں جسے انہوں نے ’’سلامٌ علیک‘‘ کا عنوان دیا ہے جو بحرِ متقارب کے ایک ہی طویل قصیدہ سے عبارت ہے۔ اس لحاظ سے ان کا یہ مجموعۂ نعت یا قصیدۂ نعتیہ ایک منفرد مجموعۂ نعت ہے اور شاعر اپنے اس دعوے میں حق بجانب ہے کہ اسے اکیسویں صدی عیسوی کا اولین طویل منظومہ تخلیق کرنے کا نعتیہ شرف حاصل ہے۔
رسول ﷲ ﷺ کی مدح و نعت گوئی میں اردو کو دنیا کی منفرد زبان ہونے کا شرف حاصل ہے کیونکہ جس کثرت اور تنوع کے ساتھ اردو کے ساتھ ساتھ دوسری پاکستانی زبانوں میں سیرتِ طیبہ لکھا گیا ہے اس کی مثال کسی اور زبان یا کسی اور اسلامی ملک میں مشکل سے ہی ملے گی لیکن سرورِ کائنات ﷺ کی جو نعت گوئی و مدح سرائی اردو زبان میں ہوئی ہے اس کی نظیر کسی اور زبان حتیٰ کہ عربی میں بھی نہیں ملے گی۔ دنیا کی کسی زبان میں آپ کو ایسے شاعر نہیں ملیں گے جن کی شعر گوئی صرف مدحتِ نبوی ﷺ کے لئے وقف ہوں اور کئی کئی دیوان یا شعری مجموعے صرف نعت گوئی پر ہی مشتمل ہوں۔ ریاض حسین چودھری اردو زبان کے ایک ایسے ہی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا تانا بانا، لفظ و معنیٰ، آغاز و ارتقاء اور بامِ عروج سب کچھ نعتِ نبی ﷺ کے لئے وقف ہے۔ ریاض صاحب کی نعتیہ شاعری کے مجموعوں پر اگر تاریخی ترتیب سے نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نعت گوئی بہتر سے بہترین کی طرف مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن یہ تسلسل و استمرار جدت وتنوع اور نوبنو معانی و افکار کا بھی رنگ لئے ہوئے ہے۔ ’’زرِ معتبر‘‘ سے ’’کشکولِ آرزو‘‘ تک ان کے دواوینِ نعت کا دلچسپ مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا فن تو مدحتِ مصطفی ﷺ کے لئے وقف ہے ہی مگر وہ جس جذب وشوق، عقیدت واحترام اور قوت ایمان سے اس میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اس سے ان کے لئے نئے رستے بھی کھلتے جارہے ہیں اور فکر و تخیل کی بھی نئی سے نئی دنیا رونما ہوتی جارہی ہے، یہایک روشن مستقبل کی علامت ہے۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ اپنی معنویت اور مفہوم کی وسعتوں کے علاوہ سچائی اور حقیقت بیانی کی گہرائیوں کے لحاظ سے بھی بہت اہم اور بڑی بات ہے۔ شاعر کی عقل و شعور جب بلندیوں کا احاطہ کرنے لگتی ہے اور اس کا قلب و ضمیر حق و صداقت کی ترجمانی کا عزم بالجزم لے کے چراغِ راہ بننے کا فیصلہ کرتے ہیں تو شاعری بھی اُس مقصد و منزل کی علمبردار بن جاتی ہے جو رب العالمین نے اپنے برگزیدہ و منتخب بندوں کا فرض منصبی بنایا ہے۔ شاعر ناموسِ نبوت کا حامی و ترجمان بھی بن جاتا ہے اوراس کے منصبِ ہدایت کا دل و جان سے محافظ ہونا بھی قبول کر لیتا ہے۔ یہاں پر آکر شاعری رسالت و پیغمبری ہی کا جزو بلکہ شریک و سہیم بھی بن جاتی ہے۔ ایسے میں شاعر وہی کہتا ہے جو قدرت اس سے کہلواتی ہے اور وہ وہی کام کرتا ہے جو ایمان کا تقاضا ہوتا ہے اسی لئے تو ممدوح شعراء حضرت رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’الشعراء تلامیذ الرحمن‘‘ (شعراء کو بھی اللہ تعالیٰ سکھلاتے ہیں) بات دراصل ظرف کی ہے اور ظرف بھی خالق کل کی تخلیق و عطا ہے۔ جتنا کسی کا ظرف بنایا گیا ہے اتنی ہی صلاحیتوں کے لئے حق شناسی اور صدق بیان کی گنجائش ضرور ہوتی ہے بشرطیکہ قدرت ربانی کی توفیق شامل حال ہو جائے۔ پھر کوئی حسان g بن جاتا ہے، کوئی بوصیری اور کسی کے لئے احمد شوقی بننا مقدر ہو جاتا ہے لیکن کبھی اسے ریاض حسین چودھری بننا بھی نصیب ہو جاتا ہے پھر کائنات کا ہر ذرہ اور گوشہ اپنا اپنا فریضہ انجام دے گا مکر ریاض ’’دہر میں اجالا کرنے والے‘‘ اسم پاک کی خوشبو کے لئے مدحت کے پھولوں کے گجرے تیار کرتا رہے گا:
’’صبا اپنے آنچل میں اُس در کی مٹی کا غازہ چھپاتی رہے گی!
شفق اپنے چہرے پہ سرخی حیا کی سجاتی رہے گی!
گھٹا اپنے کندھوں پہ دوشالہ اوڑھے
محبت کے گہرے سمندر سے پانی کی بوندوں کی خیرات لیتی رہے گی!
قلم میرا مدحت کے پھولوں کے گجرے بناتا رہے گا!
مری چشمِ تر اپنی ویران راتوں کے آنگن میں خود ناچ اٹھا کرے گی!
مری چشم تر مسکرایا کرے گی!
مرے سر پہ رحمت کی چادر کا سایہ رہے گا
’’اسی اسم تازہ‘‘ کی خوشبو سے اوراقِ ہستی مکہتے رہے ہیں مہکتے رہیں گے
یوں ریاض حسین چودھری کا ذوقِ بلند، ذہنِ رسا اور فکرِخلّاق اپنی خدا داد صلاحیتوں کے طفیل فضاؤں میں بکھرے ہوئے معانی کو لباسِ الفاظ میں قید کر کے جب ہمارے سامنے پیش کرتی ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ واقعی وہ بھی تلمیذ رحمانی کا شرف پا کر پیغمبری کا شاعرانہ جزو بن گیا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ زرِ معتبر، رزقِ ثنا، تمنائے حضوری، متاعِ قلم اور کشکولِ آرزو کا شاعر اب ’’سلامٌ علیکَ‘‘ کی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے اس لئے اردو کی نعتیہ شاعری کو اب ریاض (باغ) کے کھلتے ہوئے پھولوں کے مزید کرشموں کی نہ صرف توقع رکھنی چاہیے بلکہ یقین کے ساتھ استقبال کے لئے تیار بھی رہنا چاہیے۔
’’سلامٌ علیکَ‘‘ ریاض حسین چودھری کا تازہ مجموعہ (بلکہ طویل قصیدہ نعتیہ) ہی نہیں،
اردو نعت کی دنیا کے لئے ایک شاعرانہ کرشمہ ہے۔ اس نے جو مدحت رسول ﷺ کے گجرے تیار
کرنے کا اعلان بلکہ عزم بالجزم ظاہر کیا تھا وہ اپنے پہلے دیوانِ نعت کے بعد سے مسلسل
یہی گجرے تیار کرتے کرتے اب ’’سلامٌ علیکَ‘‘ تک آن پہنچا ہے مگر ’’ابھی عشق کے امتحاں
اور بھی ہیں‘‘ ؛ابھی تو بوصیریؒ، نبہانیؒ، شوقیؒ کارنگ اختیار کرنے اور اردو نعت کو
ایک نئی دنیا سے روشناس کرانے کے لئے اٹھے ہیں۔ قدرت نے ریاض کو جوبے پناہ تخلیقی صلاحیتیں
عطا کی ہیں، تلمیذِ رحمان ہونے اور جزوے از پیغمبری پانے کا جو شرف حاصل ہوا ہے’’سلامٌ
علیکَ‘‘ تو اس کی تمہید ہے۔ ابھی کئی ایک طویل تر اور پھر ’’طویل ترین’‘ نعتیہ قصائد
آئیں گے۔ انشاء اللہ! اور مجھے اپنے ساتھی اور دوست مرحوم و مغفور حفیظ تائب کے ان
الفاظ سے مکمل اتفاق ہے اور اسے ایک نعت گو شاعر کا دوسرے نعت گو شاعر کے لئے خراجِ
تحسین بھی سمجھتا ہوں۔ بلکہ ’’ولی را ولی می شناسد‘‘ کے محاورے کے مطابق حفیظ تائب
کی جوہر شناسی اور قدردانی کی بھی داد دیتا ہوں، انہوں نے فرمایا تھا:
’’ریاض حسین چودھری کی نعت میںاس قدر تسلسل (اور روانی بھی ہے) ایسی گہری وابستگی،
اپنی تازگی و شگفتگی اور اس درجہ وسعت وندرت ہے کہ اس کی خوبیوں کا احاطہ کرنا بہت
مشکل ہے۔‘‘
بیشک جزوے از پیغمبری سے نوازے جانے والے اس تلمیذِ رحمانی کی خداداد صلاحیتوں کااحاطہ کرنا مشکل ہے اوراس کا تازہ ثبوت ’’سلامٌ علیکَ‘‘ ہے۔ ’’سلامٌ علیکَ‘‘ جسے شاعر نے اکیسویں صدی عیسوی کی پہلی طویل نعتیہ نظم قرار دیا ہے، اردو زبان کا ایک طویل نعتیہ منظومہ ہے (جسے قصیدہ بھی کہہ سکتے ہیں) اورشاید یہ دعویٰ بھی درست ہو کہ اکیسوی صدی عیسوی کے نقطہ آغاز سے تادم تحریر اور کوئی طویل نعتیہ منظومہ وجود میں نہ آیا ہو، اگر بات اثبات میں کی جائے تو پھر یقینا ہمارے شاعر ریاض حسین چودھری اس منفرد اعزاز کے حامل ہیں کہ انہوں نے سرورِ کائنات ﷺ کی مدح میں اس صدی کی اولین طویل نظم یا قصیدہ لکھنے کا شرف حاصل کر لیا ہے۔ تاہم اس منفرد اعزاز سے قطع نظر یہ طویل منظومہ اپنے تخلیق کار کو اور بھی بہت کچھ دلوانے کا وسیلہ ہو گا!
ریاض صاحب کا یہ طویل منظومہ جو خلیل بن احمد کی سولہ بحروں میں ہلکی پھلکی اور آسان بحر متقارب (فعولن فعولن چار بار مکرر) میں ہے تقریباً چھ سو اشعار پر مشتمل ہے بشرطیکہ ’’سلامٌ علیکَ‘‘ والا ایک شعر بھی ہر بندے کے ساتھ شمار کیا جائے۔بصورت دیگر آٹھ سو کے قریب اشعار بنتے ہیں اس لحاظ سے یہ منظومہ اردو کی طویل منظومات و قصائد میں شمار ہو گا۔ شاعر نے اپنے اس طویل منظومہ میں افکار و معانی کے جس تنوع اور کثرت کی دنیا آباد کی ہے، شاعرانہ حکمت کے جو موتی اور جواہر پروئے یانظم کئے ہیں اورحسنِ لفظ کے ساتھ جمالِ معنیٰ کے جو پھول سجائے ہیں وہ تو قاری کے سامنے ہیں اور وہ ان سے لطف اندوزی کے ساتھ ساتھ ایمان افروزی و روح پروری کا سامان بھی کر سکتا ہے، تاہم وسیع سمندر میں سے چند موتی ’مُشتے از خروارے‘ کے مترادف سامنے لانا اوران کی طرف توجہ دلانا ہمارا فریضہ منصبی بھی ہے!
مسلمان اہل علم و قلم اس حقیقت پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور اس پر پوری طرح حرف بہ حرف عمل پیرا بھی ہیں کہ جس طرح کلام ربانی الحمد شریف یا سورۃ الفاتحہ یا ام الکتاب سے شروع ہو تا ہے اسی طرح مسلم اہل علم بھی اپنی بات کا آغاز حمدِ باری تعالیٰ سے کیا کرتے ہیں۔ یہ دراصل سرکارِ ہر عالم و ہر جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اس ارشادپر عمل کے مترادف ہے جس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’کل امر ذی بال لم یبدأ باسم اﷲ (أو بحمد اﷲ) فھوٰ ابتر یعنی ہر اہمیت والا جو کام اﷲ تعالیٰ کے پاک نام سے (یا اﷲ کی حمد و ثنا سے) شروع نہیں کیا جائے گا وہ نامکمل و ناقص رہے گا! ریاض حسین چودھری نے بھی اس حدیث پر عمل پیراہونے کا فریضہ خوب خوب نبھایا ہے۔ چنانچہ پہلے پانچ بند اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے لئے مختص ہیں! پہلی وحی ربانی اقراء کے صیغہ امر سے شروع ہوتی ہے اور علم کی فرضیت کا پیغام دیتے ہوئے علم و قدرت خداوندی، احترام آدمیت، نطق وبیان کی عظمت اور قرطاس و قلم کی بڑائی اورکار فرمائی کا احساس دلاتی ہے۔ ’’سلامٌ علیکَ‘‘ کے شاعر کا بھی کتابِ زندہ قرآن حکیم کے انہی معانی و مفاہیم کو اپنے ان حمدیہ بنود میں سمونے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے نعتیہ قصیدہ کا نقطہ آغاز ہے:
قلم سر جھکائے ورق کی جبیں پر
سجائے دیے شب کو قصر یقین پر
حکومت ہے اس کی فلک پر زمین پر
خدا آپ ﷺ کا سب سے اعلیٰ و بالا
سلامٌ علیکَ ، سلامٌ علیکَ
سلامٌ علیکَ ، سلامٌ علیکَ
نوکِ قلم، جبینِ ورق، چراغِ شب، قصرِ یقیں اور پھر اﷲتعالیٰ کی ملکوت السموات والارض کے تین مصروں کے بعد آخری تین مصرعے درود و سلام کے لئے مختص ہیں! یہاں گویا حمد و مدح کی سرحدیں ملا کر محب ومحبوب کے ناقابلِ انقطاع رشتہ ابدی و سرمدی کا احساس دلایا گیا ہے۔ حمد کے یہ پانچ بند یہی حسن و جمال لئے ہوئے ہیں مگر حمد کا پانچواں اور آخری بند خدائے لم یزل کو تمام ارض و سماوات کا ربِ مطلق اور دکھی انسانیت کاواحد سہارا بنانے کے ساتھ ساتھ شاعرانہ جھجک اور تواضع و تردد سے مقامِ مصطفی ﷺ کے لئے ہے ! لولاک لما خلقت الافلاک کے اعلانِ خداوندی کی رو سے اپنے رب کی اس تمام خدائی کے مالک تو آپ ﷺ ہی ہیں۔
وہ صحرائے غم میں سہارا ہے سب کا
سبھی کچھ سبھی کچھ، سبھی کچھ ہے رب کا
کروں کیا بیاں میں مقامِ ادب کا
خدا کی خدائی کے مالک ہو آقا ﷺ !
سلامٌ علیکَ ، سلامٌ علیکَ
سلامٌ علیکَ ، سلامٌ علیکَ
حمد باری تعالیٰ کے بائے بسم اﷲ کے بعد مدحتِ رسول ﷺ کے لئے تمہید تیار ہوتی ہے اور شاعر اپنے رب سے متاعِ ہنر کی سند کے لئے تمنا کرتا ہے اور ردائے ابد کی طلب دعا بنتی ہے تو پذیرائی کی مالا کے لئے آرزو کرتے ہوئے اشک رواں سے قصیدہ تحریر ہوتا ہے۔ ہمارے شعراء کایہی معمول رہا ہے۔ دور افتادہ اسلامی اندلس کے شعراء بیت اللہ کی عظمت و تقدیس کے قصیدے لکھتے، روضۂ رسول ﷺ کے لئے ہدیۂ مدح و سلام لکھتے اور حج کے لئے آنے والوں کے ہاتھ بطور ارمغان ارسال کر دیتے تھے، تاہم مولانا جامی جیسے مدحت گوشعرائے فارسی دوشِ ہوا کو قاصد بناتے اور اپنی فریاد بارگاہِ بے کس پناہ میں بھجوا دیتے تھے۔
نسیما! جانب بطحا گذر کن!
ز احوالم محمد ﷺ را خبر کن!
ہمارے ریاض حسین چودھری بھی پیروِ جامی معلوم ہوتے ہیں چنانچہ ’’سلامٌ علیک‘‘کا ہدیۂ مدینہ دوشِ ہوا کے سپرد کرتے ہیں۔ سلاموں کی ڈالیاں ہیں، درودوں کے گجرے ہیں جو شعروں میں سجائے جاتے ہیں، جن کے لفظ لفظ میں عقیدت مند شاعر کے دل کی دھڑکنیں سنائی دے رہی ہیں اور اشکوں سے تحریر شدہ قصیدہ ’’سلامٌ علیک‘‘سراپا تمنا بن کر دوشِ ہوا پر روانہ ہو رہا ہے! واہ کیا منظر ہے:
سلاموں کی ڈالی درودوں کے گجرے
ہواؤں نے دستِ تمنا پہ رکھے
ہر اک لفظ میں دل غلاموں کے دھڑکے
ریاض اپنے اشکوں سے لکھے قصیدہ!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
بنودِ قصیدہ کا ایک طویل سلسلہ ہے جو عقود جواہر کی صورت زینتِ قرطاس ہے، ان تمام بنود و عقود کو چھونا نوکِ قلم کے بس میں نہیں لیکن اتنی بات قابلِ توجہ ہے کہ ریاض کو یہ یقین ہے کہ وہ دنیا میںآیا ہی مدحِ رسول ﷺ کیلئے ہے۔ یہ وہ حظِ سعید ہے جو قساّمِ ازل نے اس کے مقدّر میں لکھ دیا تھا، تا ہم شاعر کی آرزو ہی یہی ہے اور وہ اپنے اس ازلی و ابدی ہنر کے لئے حرفِ تازہ کا متمنی ہے اور یہ تمنائے اِبداع اورآرزوئے تخلیق ہر کاملِ فن کا مقدّر ہے:
ازل سے ہتھیلی پہ ہے حرفِ مدحت
ازل سے ملا ہے یہ حسنِ بلاغت
ازل ہی سے حاصل ثنا کی ہے دولت
ورق پر کھلے یا نبیؐ ، حرف تازہ!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
شاعر جو صاحبِ شعور بھی ہو اور باضمیر بھی وہ مدحتِ رسول ﷺ کے وقت نہ تو اپنی عرض داشت کو بھول سکتا ہے ، نہ اپنے گردو پیش کو فراموش کر سکتا ہے اور نہ اس کے بارے میں غلط فہمی ہونی چاہیے کہ وہ امت مسلمہ کے دکھ درد اور انسانیت کے رنج و الم کو پس پشت ڈال دے گا! اور ریاض چودھری تو شعورِ بلند کا مالک اور ضمیر زندہ کی دولت سے مالا مال ہے۔ چنانچہ وہ اپنے اس طویل منظومے میں مدحتِ مصطفی ﷺ کے خوبصورت گلدستے سجانے کے ساتھ ساتھ ان تمام موضوعات کو بھی شعر میں ڈھال کر ایک فریاد اور استغاثہ کے انداز میں دربارِ مصطفی ﷺ میں پیش کرتا ہے:
مسائل میں کب سے پریشاں ہیں آنکھیں
حضورؐ آنسوؤں سے فروزاں ہیں آنکھیں
پشیماں پشیماں، پشیماں ہیں آنکھیں
ہے حیرت کی مٹی سے منظر اٹا سا!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
اور امت مرحومہ کا یہ حال ہے کہ:
چراغِ عزائم بجھا ہی بجھا اب
اثاثہ یقیں کا لٹا ہی لٹا اب!
دریچہ قضا کا کھلا ہی کھلا اب!
کرے کیا بھلا امت بے ارادہ!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
حتیٰ کہ تازہ صلیبی و صہیونی یلغار بھی زبانِ شاعر پر فریاد ہی فریاد بن گئی ہے:
صدی یہ غلاموں پہ کتنی ہے بھاری
تنزّل ہے آقا تسلسل سے جاری
عجب بے حسی کا یہ عالم ہے طاری
عدو چار جانب سے ڈالے ہیں گھیرا
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک!
ڈاکٹر ظہور احمد اظہر
26 جولائی، 2004
لاہور