خلدِ بریں کا موسم طیبہ میں پرفشاں ہَے- تحدیث نعمت (2015)
خلدِ بریں کا موسم طیبہ میں پرفشاں ہَے
سایہ شبِ سیہ کا اس شہر میں کہاں ہے
خوشبو بسی ہوئی ہَے جس کے بدن میں اب تک
سوچو تو اُس گلی کا ہر ذرّہ آسماں ہَے
خیرات مانگتے ہیں قدمینِ مصطفیٰؐ کی
دامن بچھائے اُنؐ کی چوکھٹ پہ کہکشاں ہے
تاریخ کہہ رہی ہَے آدم کی نَسلِ نو سے
ہر نقشِ پا نبیؐ کا رحمت کا سائباں ہَے
شام و سحر فرشتے آتے ہیں آسماں سے
گرد و غبارِ طیبہ دستارِ قدسیاں ہے
گستاخِ مصطفیٰؐ کی آنکھیں نہیں ہیں ورنہ
ارض و سما میں اُنؐ کا کردار ضوفشاں ہے
بیدار ہو رہا ہَے امت کا ہر قبیلہ
عزم و عمل سے روشن صدیوں کی داستاں ہے
ہم سر بکف چلیں گے رہِ عشقِ مصطفیٰؐ میں
پھر کربلا کی جانب ہر قافلہ رواں ہے
حُبِّ نبیؐ سے آنکھیں لبریز ہیں ہماری
بے غیرتی کا چشمِ پُرنم میں کب دھواں ہے
ہر سَمت سے بلائیں گھیرے میں لے رہی ہیں
کس دشتِ بے اماں میں امت کا کارواں ہے
دستِ کرم خدا را احوالِ عاصیاں پر
بارش کی زد میں کب سے دیوارِ مفلساں ہے
تنہا نہ خود کو سمجھے امت مِرے نبیؐ کی
لب پہ ریاضؔ اپنے قرآن ہَے اذاں ہے