ریشمی لمحات کے لب پر ہَے خوشبو نعت کی- تحدیث نعمت (2015)
ریشمی لمحات کے لب پر ہَے خوشبو نعت کی
ہر اُفق پر اس لیے ہَے روشنی ہی روشنی
آپؐ، عثمانِ غنیؓ، فاروقِ اعظمؓ کے نبیؐ
آپؐ ہیں بوبکرؓ کی جاں، آپؐ مولائے علیؓ
حَشر کے دن ہیں شفاعت کی ضمانت آپؐ ہی
حَشر کے دن ہو کلائی میں کرم کی ہتھکڑی
پھر کوئی سورج ہتھیلی پر جلے یا سیّدیؐ
ملّتِ بیضا غبارِ شب میں ہَے ڈوبی ہوئی
مانگنے کا بھی سلیقہ آپؐ ہی دیں یا نبیؐ
تا قیامت شاخِ دل، آقاؐ رہے میری ہری
یا خدا! میرے حروفِ التجا کو دے زباں
با وضو ہو کر پڑھیں محشر تلک نعتِ نبیؐ
آپؐ کا اسمِ منّور حُسن کی معراج ہے
آپؐ پر ہَے ختم توصیف و ثنا کی دلکشی
آپؐ کی نسبت سے توقیرِ بشر بھی ہَے بحال
آپؐ کی نسبت سے آقاؐ، معتبر ہے زندگی
آج بھی روشن، خلا میں، آپؐ کے نقشِ قدم
آسماں سے آپؐ لے کر آئے رُشدِ آخری
آپؐ محبوبِ مکرّمؐ خالقِ کونین کے
ہَے ضمانت مغفرت کی آپؐ سے وابستگی
میرے دامانِ طلب میں رکھ دیئے کرنوں کے پھول
اِس قدر مجھ کو نوازا، کیا کہوں؟ یا مرشدیؐ
کُل اثاثہ، چند آنسو ہیں ندامت کے، حضورؐ
سرخ قالینوں سے آلودہ نہیں راہیں مری
آپؐ کے نقشِ قدم پلکوں نے چومے تھے، حضورؐ
آئنوں کی بارشیں ہوتی رہی ہیں آج بھی
اپنے شاعر کو عطا آسودگی کے پھول ہوں
داستانِ بندۂ مجبور ہَے آنسو بھری
دامنِ صد چاک کو پہلے شعاعوں نے سیا
یاد آتا ہَے عطاؤں کا وہ موسم ہر گھڑی
آپؐ کے دیدار سے آنکھیں مشرّف ہوں، حضورؐ
پھول بن کر جب کِھلے میرا درودِ آخری
اُس جہاں میں باغِ جنت کی ہوا اپنی جگہ
اِس جہاں میں باغِ جنت آپؐ کی روشن گلی
یا رسول اللہ، گھٹاؤں کا ہدف میرا بدن
سیلِ تند و تیز میں رکھیئے سلامت جھونپڑی
ایک دن جھکنا پڑے گا آپؐ کی دہلیز پر
کب تلک بھٹکا رہے گا شہرِ زر میں آدمی
ایک طوفاں تھا ہواؤں کا مرے چاروں طرف
مشعلِ نعتِ پیمبرؐ رات بھر جلتی رہی
مَیں جوارِ حوضِ کوثر میں رہوں گا تا ابد
غیر ممکن ہے اُگے میرے لبوں پر تشنگی
مَیں تو انوارِ مدینہ میں کہیں کھو جاؤں گا
کب تلک میرا تعاقب کر سکے گی تیرگی
مَیں مواجھے میں کھڑا تھا جالیوں کے سامنے
میرے اپنے آنسوؤں کی ہر طرف دیوار تھی
آج بھی بادِ مخالف کے نہیں تیور قبول
آج بھی بھیگی ہوئی سب کشتیاں ہیں کاغذی
اپنی آنکھوں پر مَیں پٹی باندھتا کیسے حضورؐ
نعت میری آپؐ کی اُمّت کی ہَے نوحہ گری
منحرف چہروں کے جنگل میں نکل آیا ہوں مَیں
ایک بھی چہرہ مجھے لگتا نہیں ہَے اجنبی
زندہ لاشوں سے مَیں کرتا کس طرح صرفِ نظر
خاکِ طیبہ سے ملا ہَے مجھ کو ذوقِ آگہی
مَیں قسم کھاؤں گا کس کی نیک نامی کی یہاں
جب کرپشن میں ملوّث ہَے فقیرِ راہ بھی
اپنی بستی پر چٹانوں کو برستے دیکھ کر
میرے ہونٹوں پر ہَے، آقاؐ بے بسی کی خامشی
کوئی یوسف بھی نہیں کوئی زلیخا بھی نہیں
مصر کے بازار میں ہَے کس قدر بے رونقی
سیّدِ ساداتؐ کے قدموں میں رہتا ہوں ریاضؔ
زندگی میری ہَے جیسے اک شگفتہ پھول سی
اشکِ مدحت بن کے آنکھوں سے نہ چھلکے جو ریاضؔ
وہ سرِ محفل تری کس کام کی زندہ دلی
اس کی کیا تعبیر پوچھوں اُنؐ کے قاصد سے ریاضؔ
رات مَیں نے خواب میں دیکھی ہے آقاؐ کی گلی