امیرِکارواں مجھ کو بٹھا لے تُو سفینے میں - تحدیث نعمت (2015)
امیرِ کارواں مجھ کو بٹھا لے تُو سفینے میں
مَیں ساری رات تیرے پاؤں دابوں گا مدینے میں
ازل سے روح میری وادیٔ بطحا میں رہتی ہے
ازل سے اک چراغِ آرزو روشن ہَے سینے میں
ہوائے خلد لائی ہَے درودِ پاک کے گجرے
ثنا کے اَن گنت سکیّ ہیں رحمت کے خزینے میں
ستارے چوم لیتے ہیں زمیں کے ذرّے ذرّے کو
کروڑوں پھول کِھلتے ہیں ولادت کے مہینے میں
عرب کے ریگ زاروں میں جواہر ہی جواہر ہیں
ہزاروں رنگ اترے ہیں محبت کے نگینے میں
حروفِ مدحتِ سرکارؐ جھرمٹ ہیں ستاروں کے
قلم خورشید ہے توصیفِ آقاؐ کے دفینے میں
ہوائیں وَجد میں آ کر مرے اشعار پڑھتی ہیں
ثنائے مُرسَلِ کون و مکاںؐ کے ہر شبینے میں
عجب وارفتگی کا ایک عالَم قَبر میں ہو گا
غلامی کا نیا اُسلوب ہَے شاعر کے جینے میں
ریاضؔ آقائےؐ رحمت کے ہے ہر فرمان میں حکمت
ملی ہیں خوشبوئیں مجھ کو بھی محنت کے پسینے میں