کبھی کلیوں کی بارش ہو، کبھی پھولوں کی بارش ہو- تحدیث نعمت (2015)
کبھی کلیوں کی بارش ہو، کبھی پھولوں کی بارش ہو
ورق پر کلکِ مدحت کے جھکے سجدوں کی بارش ہو
ملے اذنِ حضوری، تو ہو اسلوبِ ثنا دلکش
مرے ہونٹوں کے دامن میں نئے لہجوں کی بارش ہو
ثنا گوئی کے منصب سے بڑا اعزاز کیا ہو گا
سرودِ زندگی پہ سرمدی نغموں کی بارش ہو
ارادہ کر رہا ہوں لوحِ دل پر نعت لکھنے کا
مرے اوراقِ جاں پر آج بھی کرنوں کی بارش ہو
لُغت باندھے ہوئے ہَے ہاتھ دہلیزِ پیمبرؐ پر
کتابِ عشق میں مہکے ہوئے لفظوں کی بارش ہو
شریکِ مدحتِ سرکارؐ ہوتے ہیں یہ جھک جھک کر
مرے دیوار و در پر خوشبوؤں، رنگوں کی بارش ہو
جوارِ گنبدِ خضرا میں رکھ آیا ہوں مَیں آنکھیں
مری چشمِ ادب سے آج بھی اشکوں کی بارش ہو
بہت تاریکیاں ہم نے چُھپا رکھّی ہیں گٹھڑی میں
فلک سے نور میں ڈوبی ہوئی صدیوں کی بارش ہو
قیامت تک مری نَسلوں کے دامانِ طلب بھیگیں
عطا و بخشش و رحمت کے جب لمحوں کی بارش ہو
ریاضؔ افکارِ نو کی روشنی ذہنِ رسا مانگے
قلم کے دامنِ صد رنگ میں جذبوں کی بارش ہو