سرورق پر نام اُنؐ کا جب کبھی لکھتے ہیں ہم- تحدیث نعمت (2015)
سر ورق پر نام اُنؐ کا جب کبھی لکھتے ہیں ہم
خود بھی خوشبو کی ردا اوڑھے ہوئے سِمٹے ہیں ہم
کاش رہتے شہرِ طیبہ میں قیامِ حشر تک
اِک اداسی کے گھنے جنگل میں آ نکلے ہیں ہم
زندگی کتنے مسائل میں ہَے پھر الجھی ہوئی
گرتے پڑتے، یانبیؐ، طیبہ میں آپہنچے ہیں ہم
ہر قدم پر ہیں مظالم کی نئی فصلیں کھڑی
عرصۂ محشر سے آقاؐ، آج بھی گذرے ہیں ہم
درگذر کرنے پہ آمادہ نہیں کوئی حضورؐ
ہر کماں والے کا صدیوں سے ہدف ٹھہرے ہیں ہم
کون کہتا ہَے تہی دامن ہیں آقاؐ کے غلام
احتراماً ہر قدم پر چشمِ تر رکھتے ہیں ہم
غم زدوں کو کون سینے سے لگاتا ہَے حضورؐ
ٹھوکریں کھا کر درِ عالی پہ لوٹ آتے ہیں ہم
جَبرِ شب کی ضرتبوں کو بھول کر شام و سحر
خلدِ طیبہ کی فضاؤں میں کِھلے رہتے ہیں ہم
یہ مگر خود سے نہیں پوچھا سرِ ساحل ریاضؔ
کشتیاں اپنی جلاکر بھی کبھی اترے ہیں ہم
لوگ کہتے ہیں سناؤ نعت کا مقطع ریاضؔ
شہرِ طیبہ کے گلستاں میں جدھر جاتے ہیں ہم