سرکشی پر ہیں آمادہ پیر و جواں، اس طرف بھی نگاہِ کرم مہرباںؐ- تحدیث نعمت (2015)
سر کشی پر ہیں آمادہ پیر و جواں، اِس طرف بھی نگاہِ کرم
مہرباںؐ
اِس طرف رات دن بارشیں امن کی، اِس طرف بھی چراغاں کرے آسماں
آپؐ میرِ عرب، آپؐ شاہِ عجم، آپؐ کی ذات آقاؐ کرم ہی کرم
رحمتِ دوجہاں، عِلم کی کہکشاں، آپؐ ہیں نورِ کون و مکاں بے گماں
کب سے افسردہ ہَے میرے گھر کی فضا، بَرف زاروں میں بس آگ
ہی آگ ہَے
میرے اکناف میں، میرے اطراف میں، موسمِ ابرِ رحمت رہے پرفشاں
یانبیؐ، عافیت کی ملے روشنی، کشتِ جاں سے ہو رخصت کبھی تیرگی
کب تلک روز و شب کی پیٔوں تلخیاں، کب تلک میرے لب پہ ہو آہ وفغاں
خون بہتا ہَے ہر روز دالان میں، قتل گہ بن گئی ہَے زمینِ
وطن
یا نبیؐ، اب ردائے تحفظ ملے، ٹوٹ پڑتی ہَے ہر شام برقِ تپاں
آبجؤوں میں پانی کا قطرہ نہیں، جلتے خورشید ہیں کتنے مسند
نشیں
دھوپ صحرا کی چادر ہَے جس کے تلے چُھپ گیا ہَے خنک موسموں کا جہاں
آگ برسا رہی ہَے فضائے وطن، آگ میں تپ رہے ہیں ہمارے بدن
تشنگی اِس قدر! الاماں الاماں، ہَے اُفق پر شبِ ناروا کا دھواں
سرد موسم میں پنچھی ہیں بھیگے ہوئے، باوجود اس کے شاخیں
ہیں سوکھی ہوئی
بجلیوں سے بچائے گا کیا، یا نبیؐ! صحنِ گلشن میں بکھرا ہوا آشیاں
ہم کُھلے آسماں کے تلے یا نبیؐ، ڈور کب تک سنبھالے رہیں
سانس کی
زلزلے اس تواتر سے آتے رہے، مٹ گیا بستیوں کا بھی نام و نشاں
جرم ہم سے ضعیفی کا سر زد ہوا، اپنا ماضی بھی آنکھوں سے
اوجھل رہا
پھول کِھلنے کی کیا آرزو ہم کریں، بارشِ سنگ ہَے ہر قدم پر یہاں
یا نبیؐ، غم زدہ ہَے ریاضؔ آپؐ کا، اِس کے زخموں پہ مرہم
رکھے روشنی
ریت کے جو گھروندے تھے سب بہہ گئے، بادباں ہیںکہاں، کشتیاں ہیں کہاں