قطعات- خلد سخن (2009)
فشارِ ذات کی طغیانیوں میں رہتا ہوں
یقین و عزم و تمنّا کی روشنی ہو عطا
ہوائے کرب و بلا میں مَیں سانس لوں کب تک
مرے حضورؐ! مجھے کیفِ سرمدی ہو عطا
…
ضمیرِ گلشنِ صبر و رضا نے مجھ سے کہا
ہوائے شہرِ مقفل میں ہو درود پڑھو
سلام لکھو، بنامِ حضورؐ، اشکوں سے
اُداس شام کے مقتل میں ہو درود پڑھو
…
مری مجال ہی کیا ہے کہ روبرو اُنؐ کے
حروفِ عرضِ تمنّا زبان پر لاؤں
نفس کی ساری غلاظت بدن پہ ہے میرے
درِ حضورؐ پہ جاؤں تو کس طرح جاؤں