آپؐ کے دستِ عطا میں ہے قلمدانِ حیات- خلد سخن (2009)
آپؐ کے دستِ عطا میں ہے قلمدانِ حیات
آپؐ سَیلِ رحمتِ حق، آپؐ بارانِ حیات
آج بھی نوکِ زباں پر ہے ستاروں کا ہجوم
ہوں منوّر آج بھی تارِ گریبانِ حیات
ایک اِک ساعت کتابِ زندگی کا معجزہ
ایک اِک لمحہ پیمبرؐ کا ہے عرفانِ حیات
اُنؐ کے قدموں سے لپٹ جاتا ہے میرا ہر خیال
حشر تک اب جگمگائے کوہِ فارانِ حیات
نسلِ آدم کے پیمبرؐ! حشر تک مہکا رہے
آپؐ کے انفاسِ اطہر سے گلستانِ حیات
سر برہنہ ہوں، سرِ مقتل میں کب سے یانبیؐ
ہو رفو نظرِ کرم سے چاکِ دامانِ حیات
بعد مرنے کے زیارت سے مشرف چشمِ نم
اور بھی پختہ ہوا ہے قصرِ ایقانِ حیات
کس لیے ہاتھوں پہ سورج کو سجا لیتی ہوا
اُنؐ کے نقشِ پا سے روشن ہے شبستانِ حیات
قرض پہلے ہی بہت ہے امتِ مرحوم پر
جبر کے موسم طلب کرتے ہیں تاوانِ حیات
ہر خزانے کی اُنہیں بخشی گئی ہیں کنجیاں
اُنؐ کی چوکھٹ سے عطا ہوتے ہیں ارکانِ حیات
اس کو حاصل ہے قدم بوسی کا اعزازِ جمیل
اپنے قدموں پر کھڑا کیوں نہ ہو ایوانِ حیات
آدمی صدیوں سے ہے عدمِ توازن کا ہدف
آپؐ کا ہر نقشِ پا آقاؐ ہے میزانِ حیات
چند آنسو ہیں ندامت کے فقط زادِ سفر
’’مختصر سا ہے مگر کافی ہے سامانِ حیات‘‘
کب قلم ہے لائقِ اظہارِ وصفِ مصطفیٰؐ
لفظ یہ بے ربط میرے کب ہیں شایانِ حیات
صرف نعتِ مصطفیٰؐ سچا حوالہ ہے ریاضؔ
دوسرے یہ سب حوالے ہیں رقیبانِ حیات