گنبدِ خضرا کے سائے میں ہَے دیوارِ حیات- زم زم عشق (2015)
گنبدِ خضرا کے سائے میں ہے دیوارِ حیات
یا خدا! مہکا رہے میرا چمن زارِ حیات
ہر گھڑی چشمِ تصّوُر میں رہیں کرنوں کے پھول
ہر گھڑی سر پر رہے میرے بھی دستارِ حیات
ایک اک ساعت درودوں کی امانت دار ہے
ایک اک جھونکا ہوا کا ہے عَلَم دارِ حیات
چشمِ تر کو رقص کرنے کا سلیقہ آگیا
بھیگا رہتا ہے مرے اشکوں سے رخسارِ حیات
مَیں ورق پر پھول ہی لکھتا رہوں شام و سحر
کام آئیں نعت کے، یہ میرے افکارِ حیات
ایک اک لمحہ ہَے مصروفِ ثنائے مصطفیٰ ؐ
دست بستہ آپ ؐ کے در پر ہیں ادوارِ حیات
ہر کلی کے لب پہ کِھلتے ہیں درودوں کے گلاب
موسمِ شاداب میں رہتا ہے گلزارِ حیات
جس میں طیبہ کی ہواؤں کا گذر ممکن نہ ہو
کون کافر ہوگا ایسے میں طلب گارِ حیات
آپ ؐ کے اذکار سے مہکا رہے حرفِ ادب
ایک اک مصرع میں تابندہ ہوں آثارِ حیات
کون آئے گا چراغوں کی لووں کو لوٹنے
عشق کی گرمی سے جب خالی ہے بازارِ حیات
سب فرنگی فلسفے ہیں کھوکھلے اے بے خبر!
اُن ؐ کی چوکھٹ سے ملیں گی تجھ کو اقدارِ حیات
مَیں پڑا رہتا، درِ سرکار ؐ پر محشر تلک
روک سکتا کاش مَیں طیبہ میں رفتارِ حیات
ہر نفس اُن ؐ کی غلامی کے لئے پیدا ہوا
منکشف مجھ پر کئے ہیں اُس نے اسرارِ حیات
سرخیاں اُن ؐ کے کرم کے نور سے لکھّی گئیں
آپ ؐ کی توصیف کا مخزن ہے اخبارِ حیات
پرورش کرتے رہیں وہ ظلمتِ شب کی ریاضؔ
ہم مدینے سے اٹھا لائیں گے انوارِ حیات