ثنا گوئی میں میرا منفرد سا ایک لہجہ ہَے- زم زم عشق (2015)
ثنا گوئی میں میرا منفرد سا ایک لہجہ ہے
درِ سرکار ؐ سے رزقِ ثنا ہر روز ملتا ہے
فقط اک دیدۂ تر ہی نہیں ہے رقص میں میرا
سخن اَبْرِ ثنا بن کر مدینے میں برستا ہے
ستارے خود بخود اگتے نہیں اوراقِ تشنہ پر
انہیں اشکوں کی رم جھم میں مسلسل رہنا پڑتا ہے
سیاہی بن کے دِکھتی ہے کبھی اشکِ ندامت میں
کبھی اشکِ ندامت چودھویں کا چاند لگتا ہے
ضمیرِ حرف روشن ہے مہِ کامل کی کرنوں سے
قلم کے سر پہ تاجِ خوشنما قدرت نے رکھّا ہے
مصّلے پر جبیں رکھ کر مَیں اُس کی حمد لکھتا ہوں
ثنا گوئی کا منصب جس نے مجھ عاصی کو بخشا ہے
در و دیوار اس کی خوش نصیبی کی گواہی دیں
ادھر سے قافلہ اُن ؐ کے غلاموں کا گذرتا ہے
کہیں سوئِ ادب ٹھہرے نہ شوخی حرفِ روشن کی
قلم اس واسطے چپ چپ درِ آق ؐ پہ رہتا ہے
سرِ تسلیم خم، جنت میں نہریں دودھ کی ہوں گی
مدینہ پھر مدینہ ہَے، مدینہ پھر مدینہ ہے
خدا کا شکر ہے جھوٹی انا حائل نہیں ہوتی
مرے اندر کا انساں بھی اُنھی ؐ کے در کا منگتا ہے
سمندر کی ہواؤ دو سلامی دونوں ہاتھوں سے
مدینے کے مسافر کا سفینہ آن پہنچا ہے
کسی اخبار کے کالم میں پڑھ کر حال امت کا
ورق پر آج بھی میرے قلم سے خون ٹپکا ہے
ریاضِؔ خوشنوا پڑھ کر درودِ پاک اب سو جا
تری آنکھوں میں طیبہ کے گلی کوچوں کا نقشہ ہے