دل کی تختی پہ جلی حرفِ منوّر رکھا- زم زم عشق (2015)
دل کی تختی پہ جلی حرفِ منّور رکھّا
اپنے اشکوں کا دیا دستِ صبا پر رکھّا
کس طرح شکر بجا لاؤں کہ بعدِ مَحشر
نعت گوئی پہ مجھے اُس نے مقرر رکھّا
میرے خالق نے مدینے کا مسافر کہہ کر
میری تخلیق میں ہے عشقِ پیمبر ؐ رکھّا
حکمِ ربی سے مری کلکِ ثنا نے اِمشب
لفظ جو نعت میں رکھّا وہ مصّوَر رکھّا
میرے بچوّں نے دعاؤں کے حسیں آنچل میں
خلدِ طیبہ کی تمناؤں کا لشکر رکھّا
مَیں نے سامانِ وراثت میں ادب سے بچوّ!
اپنی دستارِ غلامی کو سجا کر رکھّا
روزِ تخلیق مرے تشنہ لبوں پر اُس نے
حُبِّ سرکارِ ؐ مدینہ کا سمندر رکھّا
باغِ جنت کی ہواؤں کو مقرر کرکے
آپ ؐ کے اسمِ گرامی کو معطر رکھّا
میرے آقائے مکرم ؐ نے سرِ بزمِ حیات
خوں کے پیاسوں کو بھی سینے سے لگا کر رکھّا
یا نبی ؐ، بھیک میں مانگے ہوئے لقمے کھا کر
بے عمل اتنے ہوئے، چوم کے پتھر رکھّا
میر و سلطاں نے اسے جھک کے سلامی دی ہے
جس نے اسباقِ غلامی کو ہے ازبر رکھّا
آپ ؐ سرکار ؐ نے حکمت کا خزینہ دے کر
ظلمتِ کفر میں انوار کا پیکر رکھّا
شکر واجب ہَے، محمد ؐ کے خدا کا مجھ پر
جس نے میرا بھی مدینے میں مقدر رکھّا
میرے مرقد کے سرہانے پہ لگا دو اس کو
گھر میں جو پھول مدینے کا چھپا کر رکھّا
اس لئے دل میں چراغاں ہی چراغاں دیکھو!
نعت گوئی کا عمل روح کے اندر رکھّا
خوش نصیبی نے قدم چوم لئے ہیں میرے
میرے آق ؐ نے بھرم میرا برابر رکھّا
زندہ لفظوں نے مری میز پہ آنکھیں کھولیں
عمر بھر مَیں نے کُھلا نعت کا دفتر رکھّا
ایک آنسو ابھی مقتل میں ہے روشن، آق ؐ
اپنی تاریخ میں خود ہم نے دسمبر رکھّا
حوضِ کوثر پہ سنا میرا قصیدہ تو ریاضؔ
میرے آق ؐ نے مرا نام سخنور رکھّا