ہجر کے موسم میں ہوں جاگی ہوئی آنکھیں قبول- زم زم عشق (2015)
ہجر کے موسم میں ہوں جاگی ہوئی آنکھیں قبول
یادِ طیبہ میں مری روتی ہوئی آنکھیں قبول
ڈھونڈنے نقشِ کفِ پا آپ ؐ کے یا سیدی ؐ
وسعتِ افلاک میں پھرتی ہوئی آنکھیں قبول
’’آبروئے ما‘‘(۱) کے ہر بابِ ثنا میں رات دن
آپ ؐ کو خیرالبشر ؐ لکھتی ہوئی آنکھیں قبول
سسکیوں اور ہچکیوں کے تھال کو تھامے ہوئے
جالیوں سے، یا نبی ؐ، لپٹی ہوئی آنکھیں قبول
رات بھر، یا سیدی ؐ، میَں آپ ؐ کے در پر رہا
حسن کی برسات میں بھیگی ہوئی آنکھیں قبول
خلدِ طیبہ کے مضافاتِ ادب میں صبحدم
احتراماً رقص میں آتی ہوئی آنکھیں قبول
(۱) میرا 10واں نعتیہ مجموعہ
پھر مواجھے کا وہی منظر ہو میرے سامنے
ہوں کئی برسوں سے اب ترسی ہوئی آنکھیں قبول
یا نبی ؐ، میری بیاضِ نعت کو کھولے ہوا
ہر ورق پر کیف میں ڈوبی ہوئی آنکھیں قبول
آپ ؐ کی جائے ولادت ڈھونڈنے نکلی تھیں کل
شہرِ مکہّ میں کہیں ٹھہری ہوئی آنکھیں قبول
جھومتی گاتی ہوئی، پہروں سے اٹھلاتی ہوئی
کیجئے طیبہ میں لہراتی ہوئی آنکھیں قبول
دامنِ دل میں تمنا کی سجا کر کہکشاں
یا محمد ؐ، التجا کرتی ہوئی آنکھیں قبول
شامِ تنہائی میں آق ؐ طاقِ حرف و صوت میں
اپنے شاعر کی کریں بجھتی ہوئی آنکھیں قبول
فرطِ جذباتِ محبت میں ثنا پڑھتے ہوئے
محفلِ میلاد میں جھکتی ہوئی آنکھیں قبول
طشت ہاتھوں میں درودوں کے لئیِ شام و سحر
وادئ انوار میں اڑتی ہوئی آنکھیں قبول
گنبدِ خضرا کے دامانِ ادب میں، یا نبی ؐ
آنسوؤں سے آج بھی چھلکی ہوئی آنکھیں قبول
یا نبی ؐ، در پر کھڑی ہیں ہاتھ پھیلائے ہوئے
رات بھر دربار میں بہتی ہوئی آنکھیں قبول
یا نبی ؐ، اِمشب ستارا اوج پر قسمت کا ہو
خوشبوئے دیوار میں مہکی ہوئی آنکھیں قبول
خوف سے سمٹی ہوئی، دیوار سے لپٹی ہوئی
کربلائے عَص ر میں سہمی ہوئی آنکھیں قبول
دل سے آدابِ مدینہ پھر بجا لاتے ہوئے
سیدی ؐ یا مرشدی ؐ کہتی ہوئی آنکھیں قبول
یا نبی ؐ، کب سے مسلسل ہَے دباؤ میں ریاضؔ
گردشِ حالات میں الجھی ہوئی آنکھیں قبول