سوئے طیبہ جانے والی رہگذر آنکھوں میں ہَے- زم زم عشق (2015)
سوئے طیبہ جانے والی رہگزر آنکھوں میں ہے
سچ تو یہ ہَے آج بھی قلب و نظر آنکھوں میں ہے
راستے میں جو سیمٹی تھی نگاہِ شوق نے
روزِ مَح شر بھی وہی گردِ سفر آنکھوں میں ہے
ڈھونڈتا رہتا ہوں زنجیریں غلامی کی نئی
ہمسفر، میری کتابِ مختصر آنکھوں میں ہے
کس کو فرصت ہَے بہارِ روز و شب دیکھا کرے
منظرِ خلدِ نبی ؐ شام و سحر آنکھوں میں ہے
حاضری کے وقت چشمِ تر کی بے تابی نہ پوچھ
آنسوؤں اور سسکیوں کا ہر ثمر آنکھوں میں ہے
جب مواجھے میں گذارا میَں نے بچّوں کا سلام
یوں لگا جیسے مرا بھی گھر کا گھر آنکھوں میں ہے
جس کو طیبہ کی ہواؤں نے نہیں گرنے دیا
کیا مقدر ہَے کہ پھر وہ اشکِ تر آنکھوں میں ہے
اِس کو جبرائیل کی تائید حاصل ہو، حضور ؐ
سب کا سب میرا کلامِ بے اثر آنکھوں میں ہے
اختصاراً اشک میری داستاں کہتے رہے
خوش نصیبی ہَے کہ میرا نامہ بر آنکھوں میں ہے
آپ ؐ کی پُرنور گلیوں میں قدم اٹھتے نہیں
میَں تو کیا، سرکار ؐ، ہر اک دیدہ ور آنکھوں میں ہے
آج کا اخبار بھی ہَے خون میں ڈوبا ہوا
آپ ؐ کی امت کا، آق ؐ نوحہ گر آنکھوں میں ہے
اُن ؐ کی رودادِ کرم اتنی انوکھی ہے، ریاضؔ
آج بھی میرے قلم کا ہر ہنر آنکھوں میں ہے