اُسی کے نقشِ قدم کو روزِ ازل سے اپنا نصاب لکھنا- زر معتبر (1995)
اُسی کے نقشِ قدم کو روزِ ازل سے اپنا نصاب لکھنا
تمام سچے حروف لے کر اُسی کو اُم الکتاب لکھنا
دلیل بھی ہے، جواز بھی ہے، یقین بھی ہے، مجاز بھی ہے
سوالِ شب کا اُسی کے عارض کی کہکشاں کو جواب لکھنا
اُسی کو لکھنا عظیم انساں، اُسی کو کہنا ضمیرِ قرآں
کرم کی وادی کا لہلہاتا ہوا اُسی کو سحاب لکھنا
اُلٹ گئی ہے بساطِ ارضِ دُعا ہماری حماقتوں سے
غلام زادوں کے روز و شب پر اُتر رہے ہیں عذاب لکھنا
بکھر گئی ہے بدن کی مٹی، گذر چکا ہے سروں سے پانی
سپاسنامے میں آنسوؤں سے، نہیں جو دیکھے، وہ خواب لکھنا
اَنا کی تختی پہ لکھ کے لانا گزرتے لمحوں کی آپ بیتی
اُلجھ رہے ہیں قدم قدم پر رہِ وفا میں سراب لکھنا
مِرے وطن کی زمینِ تشنہ گھٹائیں رحمت کی مانگتی ہے
سلام کرتے ہیں سندھ، جہلم، سوات، راوی، چناب لکھنا
ریاض بادِ صبا کے آنچل کی سلوٹوں میں چھپا کے آنکھیں
حضورؐ دستِ خزاں میں پھر ہے گلاب رُت کا شباب لکھنا