سرِ مقتل ہوں تشنہ لب لبوں پر جان ہے آقاؐ- زر معتبر (1995)
سرِ مقتل ہوں تشنہ لب لبوں پر جان ہے آقاؐ
گھٹا رحمت کی اُٹھے گی، مرا ایمان ہے، آقاؐ
مرا دامن بھی بھر جائے تِرےؐ قدموں کی مٹی سے
تِرےؐ قدموں کی مٹی ہی مِری پہچان ہے آقاؐ
صبا ماتھے پہ قشقہ کھینچ دے تیریؐ غلامی کا
بتانِ عصرِ حاضر کا بھی یہ ارمان ہے آقاؐ
درودوں سے کریں شام و سحر میں رنگ آمیزی
خدائے لم یزل کا بھی یہی فرمان ہے آقاؐ
چلے آتے ہیں جگنوں رقص کرتے میرے اشکوں میں
پسِ مژگاں مری دُنیا کہاں ویران ہے آقاؐ
اگرچہ پیٹ پر پتھر بھی باندے ہیں مصائب میں
مگر دونوں جہانوں کا تو ہی سلطان ہے آقاؐ
حریمِ شعر میں تیرےؐ سوا سجتا نہیں کوئی
حدیثِ عشق و مستی کا تو ہی عنوان ہے آقاؐ
مسلّط خوف کے سائے ہیں تہذیب و تمدن پر
تصور سے تِرےؐ زندہ مگر اِنسان ہے آقاؐ
نوازا ہے تِرےؐ ہاتھوں نے کتنے کج کلاہوں کو
ریاضِؔ بے نوا بھی بے سروسامان ہے آقاؐ