پسِ مژگاں کھلیں قفلِ ہنر، شہرِ محمدؐ میں- زر معتبر (1995)
پسِ مژگاں کُھلیں قُفلِ ہنر، شہرِ محمدؐ میں
ثنا خوانی کردوں شام و سحر، شہرِ محمدؐ میں
تجلّی میں نہا جاتی ہیں دیواریں مِرے گھر کی
تصور میں پہنچتا ہوں اگر، شہرِ محمدؐ میں
وہاں اِک بے نوا شاعر تڑپتا ہے جدائی میں
کرے کوئی ذرا جا کر خبر، شہرِ محمدؐ میں
کتابِ آرزُو کا ہر ورق خوُشبو بداماں ہے
مرا ہر لفظ ہے رشکِ قمر، شہرِ محمدؐ میں
طوافِ گنبدِ خضرا ہی آنکھوں کی عبادت ہے
مگر شرمندہ رہتی ہے نظر، شہرِ محمد میں
حروفِ بے صدا میرے کہاں اظہار کے قابل
سجا دوں گا مَیں اشکوں کے گہر، شہرِ محمد میں
مَیں سایہ بن کے ہر زائر کے قدموں سے لپٹ جاؤں
اگر میرے بدن کا ہو شجر، شہرِ محمد میں
اب اس کے بعد کوئی بھی نہیں منزل مری منزل
کہاں کا باندھنا رختِ سفر، شہرِ محمد میں
ریاضؔ اپنے غلاموں کی بھی رکھتے ہیں خبر آقا
کروں تو کیا کروں عرضِ ہنر، شہرِ محمد میں