مشامِ جاں تریؐ خوشبو سے مہکا ہی رہے آقاؐ- زر معتبر (1995)
مشامِ جاں تِریؐ خوشبو سے مہکا ہی رہے آقاؐ
تراؐ شاعر ثنا کے پھول چُنتا ہی رہے آقاؐ
مقید ہوں میں دیوارِ شبِ اسرار میں کب سے
کُھلا شہرِ محبت کا دریچہ ہی رہے آقاؐ
بڑی سفاک ہیں پس منظروں میں دھوپ کی کرنیں
تِریؐ رحمت کا انسانوں پہ سایہ ہی رہے آقاؐ
غبارِ راہِ طیبہ سرخیِٔ رخسارِ گردوں ہے
یہ غازہ میرے چہرے پر بھی بکھرا ہی رہے آقاؐ
مَیں اُٹھ کر رات کے پچھلے پہر لکھتا رہوں نعتیں
چراغِ دیدۂ نمناک جلتا ہی رہے آقاؐ
مِرے بچوں کے سَر پر بھی غلامی کی رہے چادر
زمانہ لاکھ پیراہن بدلتا ہی رہے آقاؐ
مِرے اشکوں میں اُبھری ہے شبیہِ گنبدِ خضرا
یہ لمحہ نُور کا آنکھوں میں ٹھہرا ہی رہے آقاؐ
در و دیوار بھی ہیں جس کے گھر کے منتظر رہتے
وہ شہرِ ہجر میں کب تک تڑپتا ہی رہے آقاؐ
تِریؐ توصیف کی مشعل جلا کر مقتلِ شب میں
ریاضؔ اپنے لہو کو صرف کرتا ہی رہے آقاؐ