ریاض حسین چودھری کی معرّیٰ حمد و نعت (ڈاکٹر ریاض مجید)- دبستان نو (2016)

ریاض حسین چودھری نعتیہ شاعری کے معاصر منظر نامے کی وہ معروف شخصیت ہیں جنہوں نے گزشتہ (کم و بیش) تین دہائیوں سے اپنے آپ کو کلی طور پرنعتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وقف کیا ہوا ہے نعت کی تخلیق اور اشاعت کے ساتھ ان کا شغف جز وقتی نہیں ہمہ وقتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ وابستگی مبارک ہے بقول علامہ اقبال

؎ بر آور ہر چہ اندر سینہ داری

نعت کے باب میں جو خیال، احساس، مشاہدہ، جذبہ یا واردات اُن کو متاثر کرتی ہے، اُسے نہ صرف اظہار میں لاتے ہیں بلکہ شائستگی کے ساتھ اسے زمانے کے سپرد بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب تک ان کے بارہ نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ’’دبستانِ نو‘‘ اُن کا تازہ مجموعہ ہے جو معّریٰ حمد و نعت پر مشتمل ہے۔

ریاض صاحب کی اب تک کی نعتیہ کوششوں کے مطالعے سے اُبھرنے والا نمایاں تاثر نعت کے حوالے سے اُن کا وفور ہے۔ اُن کی نعتیہ شاعری کے تسلسل میں یہ وفور اِس شدّت سے کار فرما ہے کہ وہ نعت کے باب میں انہیں ہمیشہ آمادۂ اظہار بلکہ تخلیق کے نت نئے پیرائے تلاش کرنے پر راغب رکھتا ہے۔ نعت کے حوالے سے انہیں یہ ترغیب اُس شیفتگی سے ملتی ہے جو ان کی محبت آمیز طبیعت میں قدرت نے فطری طور پر ودیعت کی ہوئی ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مصرعے میں ایک لفظ کے تصّرف کے ساتھ کہا جاسکتا ہے۔

؎ مجھے فطرت ’’ثنا‘‘ پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے

ریاض کی شاعرانہ فطرت میں شیفتگی وہ بنیادی جذبہ ہے جو ایک محرک کے طور پر کار فرما ہے۔ یہ اُن کی نعتِ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے۔ وہ ایک مکتوب میں اس طویل عقیدت پارے کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’نظم معّریٰ میں مَیں نے معمولی سی تبدیلی کی ہے وہ یہ کہ حمدیہ /نعتیہ نظم کے آخری دو مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں۔ کوشش کی ہے کہ نظم کا سنٹرل (مرکزی) آئیڈیا اس آخری شعر میں سمٹ آئے …‘‘

چودھری صاحب کا معّریٰ نظم کے بندوں کے لئے آخر میں غزل (یا قصیدہ) کے مطلع کا پیوند اردو شاعری کی ایک اہم روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دراصل اردو شاعری میں غزل کی صنف اپنے داخلی مزاج کے سبب اتنی محبوب اور مؤثر رہی ہے کہ نظم کے شاعروں کے تخلیقی تجربوں میں بھی اُس کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، مطلع غزل کے دو مصرعوں میں ایک جہانِ معنی کو اس طرح سمو جاتا ہے کہ وہ دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہونے کی پابندی کے باوجود جہاں مفاہیم کی دنیا کو سمیٹے نظر آتے ہیں وہاں تاثیر میں بھی دلآویزی پیدا کرتے ہیں۔

نظم کا داخلی مزاج غزل سے مختلف ہے۔ اگر اسے(Introjective) اور (Projective) کی اصطلاحوں میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ غزل خیالات کو ایک مرکز کی طرف لاتی اور محسوسات کو ایک وحدت میں سمیٹنے کا پیرایہ رکھتی ہے جب کہ نظم ایک مرکز سے خارج میں مشاہدے کو پھیلانے کا عمل ہے۔ دونوں طرزوں کا اپنا اپنا حسن اور جواز ہے اور اظہار کے مرحلے میں یہ دونوں طرزیں ضروری ہیں۔ مطلع (یا دونوں مصرعوں کا ہم قافیہ اور ردیف ہونا) غزل کے دوسرے اشعار سے بھی آگے کی چیز ہے ’آگے کی چیز‘ سے میری مراد طرزیں، خیالات کی جاذبیّت، سمٹاؤ اور تاثر آفرینی ہے۔

اردو کے کم و بیش تمام کلاسیکی شاعروں نے نظم میں غزل کا بھی کہیں نہ کہیں التزام یا اہتمام ملحوظ رکھا ہے ایسا کسی خارجی تحریک یا دباؤ سے نہیں ہوا بلکہ اس اعتبار سے کہ جب تک کسی مطلع نما انداز میں نظم سمیٹی نہ جائے لگتا ہے جیسے اظہار میں کوئی خلارہ گیا ہے یا اسی بات کو ذرا واضح انداز میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ شاعروں کے جذبۂ اظہار کی تسلی اور تشفی اسی طرح ہوتی ہے کہ ان کی وہ نظمیں جو غزل کے پیرایہ میں لکھی گئی ہیں خاتمے پر اپنے آپ کو غزل کے مطلع کی صورت میں سمیٹتی نظر آئیں۔ علامہ اقبال کو یہ پیرایہ اظہار اتنا عزیز ہے کہ انہوں نے ایک غزل میں بھی اس کا التزام روا رکھا ہے ان کی وہ غزل جس کا مطلع ہے :

کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا

شعروں کے بعد پھر ایک اور مطلع پر ختم ہوتی ہے جو درج ذیل ہے۔

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

(غزل کی روایت میں یہ بہت بڑا اجتہاد یا تصرف ہے۔ مجھے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظموں کی ڈرافٹنگ پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ ’بالِ جبریل‘ کی یہ غزل یاد آتی ہے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس غزل کے مسوّدہ کا عکس میرے پاس ہے۔ علامہ نے کہیں اس اجتہاد کی صراحت نہیں کی۔ غزل کی ہزار سالہ روایت میں یہ ایک منفرد مثال ہے کہ ایک جداگانہ مطلع غزل کو کسی ایسی غزل میں شامل کر دیا جائے جس کے قوافی اور ردیف مختلف ہوں)

بہر حال غزل میں تصرّفات کے ذیل میں اس وضاحت طلب مسئلہ کی تفصیل کا یہ مقام نہیں۔ پہلے ہی بات غیر ضروری حد تک لمبی ہو چکی ہے جس کے لئے میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔ صرف اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا کی غزل میں مطلع کا اپنا ایک مقام اور اہمیت ہے۔ اگر اسے نظم کے ساتھ استعمال میں لایا جائے تو اس سے نظم دو اعتبار سے ثروت مند ہو جاتی ہے۔ ایک یہ کہ نظم کا مرکزی خیال یا خلاصہ توازن اور جامعیت سے صورت پذیر یعنی Sizeable ہو جاتا ہے دوسرے نظم کے اختتام پر خارجی آہنگ، موسیقیت اور تاثر میں خوبصورتی پیدا ہو جاتی ہے۔

ریاض حسین چودھری صاحب کے زیرِ نظر موجود ثنا پارے جو معّریٰ نظم پر مشتمل ہیں بھی ایسی مطلعی تاثیر رکھتے ہیں۔ ان کے اس عقیدت پارے کے ہر بند کے اختتام میں غزل کے مطلع جیسے شعر کا التزام انہی دو خوبیوں Sizeability اور تاثیر کو اُبھارتا ہے۔

اردو نعت میں ہئیت کی متفرق شکلیں ملتی ہیں۔ اگرچہ ہماری نعتیہ شاعری کا بڑا حصہ غزل ہی کی صنف میں ہے لیکن اس مبارک موضوع کے اِظہار کے لئے دوہے، ہائیکو، قطعہ، رباعی، مسدّس سے لے کر پابند نظم، آزاد نظم، معرّا نظم اور نثم (نثری نظم) تک میں نعتیہ شاعری کے نمونے ملتے ہیں۔ اردو نعت کی تاریخ میں بیسیوں نعتیں طویل یک کتابی نظموں پر مشتمل ملتی ہیں۔ بعض ایسی بھی ہیں جن میں مختلف ہیئتوں کو ملا جلا کر طویل نظم کی صورت مربوط کیا گیا ہے۔ پہلی قسم کی نظموں میں عبد العزیز خالد صاحب کی ’منحمنا‘، ’فارقلیط‘، عبدہ، احسان دانش کی ’دارَین‘ محشر رسول نگری کی فخر کونین، پروین سجل کی ’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ اور دوسری قسم کی یک کتابی نعتوں میں عمیق حنفی کی ’صلصلۃ اطبرس‘ مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔

ریاض حسین چودھری کی ’’دبستانِ نو‘‘ اردو نعتیہ نظموں کی روایت میں ایک اور طرح کی انفرادیت رکھتی ہے یہ انفرادیت نظم کے ہر بند کے آخر میں مطلع کی ہیئت کی شمولیت ہے۔ (یہی تکنیک ریاض حسین چودھری نے اپنی یک کتابی طویل نعتیہ نظم ’’طلوعِ فجر‘‘ میں بھی استعمال کی ہے)

ریاض حسین چودھری نے ’دبستان نو‘ کی ترتیب میں جن عوامل کو پیش نظر رکھا ہے وہ کچھ یوں ہے۔

  1. عقیدت نگاری (Devotional Poetry) کا یہ مجموعہ معّریٰ نظم پر مشتمل ہے۔
  2. یہ حمد و نعت کے مضامین پر جداگانہ بندوں کے نمونے لئے ہوئے ہے۔
  3. یہ مجموعہ اپنی معرّیٰ نظموں کا اختتام غزل کے مطلع کے انداز میں (ہم قافیہ و ہم ردیف مصرعوں پر) کرتا ہے۔
  4. حمد اور نعت کے یہ ثناپارے مختلف بحروں میں ہیں۔
  5. ان کے عنوانات انہی نظموں کے مصرعوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔
  6. ہر حمد اور نعت کے مصرعوں کی تعداد یکساں نہیں۔ ہر عقیدت نامے کی بحر کی طرح اس کی جسامت کم و بیش مصرعوں پر مشتمل ہے۔

اس حوالے سے یہ مجموعۂ ثنا ایک شاندار انفرادیت لئے ہوئے ہے۔ اردو نعت کے عقیدتی اثاثے میں اس اعتبار سے یہ مجموعہ جداگانہ مفصّل مطالعے کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے، شیفتگی اور جذبے کا وفور ’دبستانِ نو‘ کا تخصّص ہے۔ اردو عقیدت نگاری کی تاریخ میں اس مجموعے کو ہمیشہ ایک یادگار حیثیت حاصل رہے گی۔ چودھری صاحب کی نعت گوئی کا بڑا حصہ ہم سب نعت کے شاعروں کی طرح غزل کی صنف میں کہی گئی نعتوں پر مشتمل ہے۔ غزل کی ترتیب اور مقبولیت کے سبب ہر دورِ نعت میں اس صنف کا اتنی محبت، شدّت اور کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ کسی دوسری صنف شاعری میں اس کا دسواں حصہ بلکہ عشر عشیر بھی نہیں برتا گیا۔ غزل کے علاوہ خصوصاً معّرا نظم میں ایسا ضخیم مجموعہ معاصر نعتیہ شاعری میں پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اس سے اردو نعت کے ہیٔتی اور صنفی آفاق وسیع ہوئے ہیں۔

معّریٰ نظم کی ہیٔت میں لکھی گئی نعتیہ کتاب ’دبستان نو‘ کااگربہ نظرِ غائر مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ نظمیں ایک باطنی سلسلے میں مؤثر وحدت کی طرح آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ انگریزی میں طویل نظموں کے مختلف کینٹوز (Cantos) کی طرح یہ سب نظمیں ایک نظم لگتی ہیں۔ ایک بڑی ذاتی عقیدت اور عصری آشوب میں مرتب وحدت اور Mozaic سٹائل میں اس کی ہر نظم ایک بند / ستانزے یا جز کی طرح ہے (ستانزے کا لفظ میں نے جیلانی کامران کی پہلی کتاب ’استانزے‘ سے لیا ہے جس میں کئی نظمیں مل کر ایک نظم بنتی ہیں۔ ان کے جداگانہ عنوانات کی جگہ جیلانی صاحب نے انہیں ایک دو اور تین نمبر دیئے ہیں)۔ شناخت اور علیحدہ پہچان کے لئے ’دبستانِ نو‘ کے حمدیہ اور نعتیہ حصے معنوی طور پر ایک وحدت میں پروئے ہوئے ہیں۔ اگر ان کے الگ الگ عنوانات نہ ہوں تو حمد اور نعت کے حصہ کوالگ الگ طویل نظموں کے طور پر بھی پڑھا جاسکتا ہے جیسا کہ پہلے نشاندہی کی گئی ہے کہ طویل یا یک کتابی نظموں کا ایک بحر میں ہونا ضروری نہیں۔ عمیق حنفی کی طویل نعتیہ نظم ’صلصلۃ اطبرس‘ کئی بحروں اور آہنگوں میں ہے، اس کے کئی اجزا ہیں۔ چودھری صاحب کی ’دبستانِ نو‘ کی عقیدت نگاری بھی مختلف بحروں میں ہے۔ طویل نظموں میں آہنگ کا تنوع تأثر کو بڑھاتا ہے اور قاری آہنگوں کی رنگارنگی سے محظوظ ہوتا ہے۔

’دبستانِ نو‘ میں شامل حمدوں اور نعتوں کے عنوانات جداگانہ شناخت کے لئے ہیں۔ یہ عنوانات نظموں کے اجزا کا مصنوعی خلاصہ نہیں جیسا کہ عام نظموں میں ہوتا ہے۔ ’دبستانِ نو‘ کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا آہنگ End Stop ہے، مسلسل run-on line نہیں۔ یوں ان معّریٰ نظموں کے مصرعوں پر غزل کے مصرعوں کا گمان ہوتا ہے۔ ’دبستانِ نو‘ کا موضوع تو عقیدت نگاری یا حمد و نعت ہے مگر صنفی طور پر ان معّریٰ نظموں کے مزاج میں غزلیہ نعت کا آہنگ لوَ دے رہا ہے۔ غزل کے علائم و رموز، الفاظ اور تراکیب، تشبیہ، ’استعارہ‘، علامات وتلازمات، سب محاسن کے پیچھے غزل کی طویل ریاضت اور مطالعہ جھلک رہا ہے۔ بیچ بیچ میں اندرونی قوافی و ردیف کے سبب کئی شعر مطلعوں کی طرح ہم قافیہ اور ہم ردیف بھی ہو گئے ہیں۔ ریاض حسین چودھری کے ’دبستانِ نو‘ کی عقیدتی شاعری میں صفحہ صفحہ پر خوبصورت تراکیب اور محاکات ہی نہیں ملتے بلکہ ’دبستانِ نو‘ کا نعتیہ منظر نامہ اردو شاعری کے معروف محاسن سے قابلِ ذکر اور لائقِ ستایش حد تک مزّین ہے… تشبیہ واستعارہ، محاکات، ثمثالیں، جذبات نگاری، خطابیہ لب ولہجہ، روانی، خوش آہنگی، اندرونی قوافی، تحت لہجہ کی نغمگی، جذبات کا بہاؤ، رقّت وگداز، درد مندی وغیرہ…

عجز آفرین نعت کے حوالے سے کلام کرتے ہوئے ہمارے شاعر نے ان محاسن کو آمیز کیا ہے جس سے اس نعتیہ فن پارے میں جاذبیت اور تاثیر کے عناصر پیدا ہوگئے ہیں۔ فنّی محاسن کے حوالے سے مختلف جگہوں سے کچھ الگ الگ مصرعے اور کہیں کہیں سے ساتھ ساتھ ملے جلے مصرعے دیکھئے:

؎گٹھڑیاں محرومیوں کی سر پہ ہیں رکھّی ہوئی
آگ ہے زندہ مسائل کی مرے چاروں طرف

؎قدم قدم پہ صلیبوں کی فصل اگتی ہے
درندگی کو ہی آئین بنا دیا کس نے

حضورؐ، سارے قوانین جنگلوں کے ہیں
زمیں پہ عدل کے موسم کو کھا گئی مٹی

’دبستانِ نو‘ ایسے مصرعوں سے بھری پڑی ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے شعری خصوصیات اور فنّی محاسن کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ تشبیہ، استعارہ اور محاکات کے کچھ نمونے دیکھئے جہاں دو حسّوں کو ملایا گیا ہے۔ حس آمیزی (synaesthesia) پر مبنی یہ محاکات قابل داد ہیں۔

فضائے کرب میں کیا لکھ رہے ہیں سنّاٹے
فضائے کرب میں کیا سانس آدمی لے گا

فصیلِ خوف نے بستی کو گھیر رکھا ہے!
چڑیل، رات کے آنگن میں بال کھولے ہے

حضورؐ، باز کے پنجوں میں کب سے چڑیا ہے
حضورؐ، کب سے کبوتر کی بند ہیں آنکھیں

فکری طور پر ’دبستانِ نو‘ بیسوؤں مضامین وموضوعات کو محیط ہے اگر اس طویل نعت (جو مختلف معّریٰ نعتوں کے مجموعے پر مشتمل ہے) کو موضوع وار زیرِ جائزہ لایا جائے تو کئی جداگانہ مقالے تیار ہو سکتے ہیں مثلاً…’دبستانِ نو‘ میں

٭ سیرتی عناصر کا جائزہ
٭ درود وسلام کا موضوع

اٹھے ہیں ہاتھ طیبہ کی طرف خورشیدِ عالم کے
شعاعیں جھک کے دیتی ہیں سلامی اپنے آقاؐ کو

٭ ذکرِ صحابہ  رضی اللہ عنہم  کے فضائل کا ذکر

ریاض حسین چودھری کی معّریٰ نظموں میں منقبت صحابہ  رضی اللہ عنہم  کی مثال دیکھئے یہ امت میں صحابہ  رضی اللہ عنہم کی صفات دیکھنے کے آرزو مند بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دعا کرتے ہیں:

اسے صدیقِ اکبرؓ کی رفاقت کی ملے شبنم
اسے فاروقِ اعظمؓ کی ملے غیرت کی چنگاری
اسے عثمانؓ کے نقشِ کفِ پا کی ملے دولت
اسے خیبر شکن مولا علیؓ کی ہو عطا قربت

٭ ذاتی احوال وکیفیات کا بیان
٭ ذکر اعزّہ واحباب کے مسائل اور محبت کا بیان
٭ دعا ومناجات کے عناصر

’دبستانِ نو‘ میں کئی مصرعے دعائیہ حیثیت کے حامل بھی ہیں۔ ضرب المثل کی طرح ان کے اندر ایسے امکانات ہیں کہ انہیں معمول کے ذکر اذکار کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔

یا خدا اپنے حصارِ عافیت میں رکھ مجھے
شعورِ بندگی دے کر مری بخشش کا ساماں کر
مجھے محفوظ رکھ ظلمت کی تند و تیز بارش سے

(دعائیہ بہ شمول محاکات)

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء صفات کا بیان

حضورؐ، آپؐ ہی توحید کے علمبردار
حضورؐ، آپؐ ہی خالق کے آخری مرسلؐ
حضورؐ، آپؐ ہی محبوبِؐ کبریا، برحق
حضورؐ، آپؐ ہی سردار انبیا کے ہیں
حضورؐ، آپؐ ہی قرآں کی بولتی تصویر
حضورؐ، آپؐ ہی نعمت خدائے واحد کی

٭ ارضِ پاک کے احوال، آشوب اور زبوں حالی کا ذکر
٭ امتِ مسلمہ کے مسائل اور اُ س کی حالتِ زار کا تذکرہ
٭ فنِّ نعت گوئی کے عناصر

اسی طرح ’دبستانِ نو‘ میں صنائع بدائع، علمِ بیان اور فنّی محاسن کے حوالے سے بھی جداگانہ مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔

’دبستانِ نو‘ کا سب سے نمایاں وصف اس کا بہاؤ (Flow) اور روانی ہے یہ وصف کتاب کے آغاز سے اختتام تک ایک تند و جولاں موج کی طرح شاملِ اظہار ہے۔ بعض جگہوں میں مصرع بہ مصرع بعض الفاظ اور کیفیات کی تکرار اس بہاؤ کا باعث ہیں۔ مثلاً حضورؐ…، ورق…، اسی کے نام…، اس برس بھی…، اب کے برس بھی…، غریبِ شہرِ تمنا… اور حضور مانگنے آیا ہوں… وغیرہ وغیرہ سے آغاز ہونے والے مصرعے اس بہاؤ کو مؤثر انداز میں آگے بڑھاتے ہیں۔ بقول شیخ سعدی:

نہ حُسنش غائتے دارد
نہ سعدی راسخن پایاں

شاعر مصرع بہ مصرع نئے حوالے سے اپنی بات کو آگے بڑھاتا ہے۔ یوں کئی بند بیسوؤں اور سینکڑوں مصرعوں تک طویل ہوگئے ہیں مگر شاعر کے اظہار میں کہیں ٹھہراؤ نہیں آتا۔ نعت کے مضامین کے ساتھ ساتھ شاعر کا طرزِ اظہار بھی نوبہ نو پیرایہ اختیار کرتا جاتا ہے۔ ’دبستانِ نو‘ کے یہ طویل بیانیے خطابیہ رنگِ نعت کے منفرد نمونے پیش کرتے ہیں۔ بہ حیثیت مجموعی ’دبستانِ نو‘ کی نعتیں مقدار اور معیار دونوں حوالوں سے نہ صرف ریاض حسین چودھری بلکہ نئی اردو نعت کے آفاق کو وسیع کرتی ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہی توحید کے علم بردار … کے مصرع سے شروع ہونے والا نعت پارہ ریاض حسین چودھری کے وفور کی روشن مثال ہے۔ کئی صفحوں پر اور سینکڑوں مصرعوں پر مشتمل یہ مصرعے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء اورصفات کا نادر قرینہ لئے ہوئے ہیں۔ یہ طرِز ادا ماہر القادری کی ’سلام اس پر‘ سے آغاز ہونے والی طویل نظم ’ظہور قدسی‘ کی طرح ہے۔ اسی طرح حافظ لدھیانوی نے ’ثنا اُس کی‘ سے آغاز ہونے والی ایک طویل نعت اسی انداز میں لکھی ہے۔ ایسا آغاز ہی وفور خیز ہوتا ہے اور شاعر فرطِ محبت سے نئے نئے اسمائے رسولِ مقبولؐ تراشتا اور صفاتِ آنحضرتؐ کی تازہ تازہ صورتیں تخلیق کرتا ہے۔ مَیں ایسے انداز کو برکت انگیز سمجھتا ہوں۔ ایسا طرزِ اظہار اختیار کرنے پر قدرت خود بخود شاعر پر نادرہ کاری سے مشاہدات وتأثراتِ نعت کا دَر کھولتی جاتی ہے۔ چودھری صاحب کے اس عقیدت نامے سے کئی نئے اسماء کشید کئے جا سکتے ہیں مثلاً توحید کے علم بردار، حرا کے عابد، خدائے واحد کی نعمت، ہر صدی کے ممدوح، ارض وسما کا حسن وجمال، قرآن کی بولتی تصویر وغیرہ وغیرہ

’دبستانِ نو‘ کی سب سے نمایاں خصوصیت جس کی طرف چودھری صاحب کی توجہ بھی نہیں گئی ہو گی وہ اس مجموعے میں حمدونعت کی نئی زمینوں کی موجودگی ہے۔ اکثر نئے شاعروں کو نئی زمینوں کی تلاش ہوتی ہے۔ نعت کو نادرہ کاری اور جذب سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ضروری بھی ہے کہ پرانی مستعمل زمینوں کی بجائے نئی زمینوں میں نعتیں کہی جائیں۔ ’دبستانِ نو‘ میں شاندار اور جاندار امکانات سے بھری سینکڑوں زمینیں ہیں جن پر تازہ کاری کے طالب شاعر طبع آزمائی کریں تو ان کا تخلیقی جوہر مزید عقیدت آشنا ہو سکتا ہے۔ درج ذیل چند مصرعے دیکھئے:

٭ حضوری کی کسی دن روشنی اترے مرے دل میں
٭ جوارِ گنبدِ خضرا میں رکھّی ہیں مری آنکھیں
٭ مرے آنسو فروزاں ہیں غبارِ شہرِ طیبہ میں
٭ درِ حضورؐ پہ آنکھوں کو چھوڑ آیا ہوں
٭ غبارِ شہرِ مدینہ میں، مَیں سمٹ جاؤں
٭ مرے آنسو، مرا زادِ سفر ہیں ہمسفر میرے
٭ غلامی کی سند لے کر پلٹ آؤں یہ نا ممکن
٭ مقدّر پر تمہارے رشک آتا ہے زمانے کو
٭ ورق ورق پہ ہے نسبت کے حاشیے کا جواز
٭ محیطِ ارضِ بدن ہے بہار کا موسم
٭ ردائے عشق کا کب پیرہن بدلتا ہے

مثال دینے کے لئے مَیں نے ’دبستانِ نو‘ کے مسوّدے کو سرسری کھولا تو قریبی دو صفحات پر مجھے مذکورہ بالا نعتیہ مصرعے نظر آئے جو نعت آثار معنویت اور ثنا زاد لب ولہجہ رکھتے ہیں۔ مَیں نے دو منٹ میں ان مصرعوں پر گرہ لگا کر انہیں مطلع بنانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ (چودھری صاحب سے معذرت کے ساتھ) زیادہ توجہ اور محنت سے اُن کے مصرعوں پر بہتر گرہ کی گنجائش موجود ہے۔ ایسا صرف مثال دینے کی کوشش اور اس خواہش میں ہے کہ ریاض صاحب کی اس ثنا رنگ کتاب میں استفادے کے بہت امکانات ہیں اور ان کے نعتیہ مصرعوں کی زمینوں میں سینکڑوں نئی نعتیں تخلیق کی جا سکتی ہیں۔ اب یہ گرہیں ملاحظہ ہوں:

’’حضوری کی کسی دن روشنی اترے مرے دل میں‘‘
حرم آثار تازہ زندگی اترے مرے دل میں

’’جوارِ گنبدِ خضرا میں رکھّی ہیں مری آنکھیں‘‘
مدینے سے نہ گھر لوٹیں عقیدت سے بھری آنکھیں

’’مرے آنسو فروزاں ہیں غبارِ شہرِ طیبہ میں‘‘
مری نعتوں کی خوشبو ہے بہارِ شہر طیبہ میں

’’درِ حضورؐ پہ آنکھوں کو چھوڑ آیا ہوں‘‘
اب اور کو جو نہ دیکھے، نظر وہ لایا ہوں

’’غبارِ شہر مدینہ میں، مَیں سمٹ جاؤں‘‘
اب آرزو ہے یہی دہر بھر سے کٹ جاؤں

’’مرے آنسو، مرا زادِ سفر ہیں ہمسفر میرے‘‘
ہر اک منزل پہ جو رکھّیں عزائم، معتبر میرے

’’غلامی کی سند لے کر پلٹ آؤں یہ نا ممکن‘‘
اٹل یہ فیصلہ صرف ان کی رحمت سے ہُوا ممکن

’’مقدّر پر تمہارے رشک آتا ہے زمانے کو‘‘
نہیں بھاتی کوئی اس کے علاوہ شے زمانے کو

’’ورق ورق پہ ہے نسبت کے حاشیے کا جواز
مدام ان کا تصوُّر ہے، تخلیے کا جواز

’’محیطِ ارضِ بدن ہے بہار کا موسم‘‘
حرم کی یاد ہے دائم قرار کا موسم

’’ردائے عشق کا کب پیرہن بدلتا ہے‘‘
یہ دیکھتے ہیں کہ کب حد یہ فن میں ڈھلتا ہے

یہ گرہیں ہر شعر کے دوسرے مصرع میں سرسری انداز میں (دوبارہ چودھری صاحب سے معذرت کے ساتھ) صرف مثال دینے کے لئے لگائی ہیں۔ ان نعت خیز اور ثنا آور مصرعوں پر ارتجالاً گرہیں لگائی جا سکتی ہیں۔ ایسے مصرعے ’دبستانِ نو‘ میں صفحہ صفحہ پر بکثرت موجود ہیں۔

معّریٰ نظموں میں لکھی جانے والی حمدوں اور نعتوں کے علاوہ اردو کی دعائیہ شاعری میں اس کتاب کو خصوصی اہمیت حاصل رہے گی۔ اتنی ضخیم کتابِ عقیدت کو لکھنے کے بعد اسے کتابی صورت دینا ایک دقّت طلب کام تھا جس سے ریاض حسین چودھری کامیابی سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ نعتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں تکرارِ مضامین کا اپنا لطف ہے۔ موضوع کے بیان میں نسبت کے شرف نے اور جذبات کے وفور نے تکرار کو بھی دلآویز بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ریاض حسین چودھری کے تازہ مجموعہ ’دبستانِ نو‘ کو حُب داروں میں مقبول اور اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

بہ حیثیت مجموعی ’دبستانِ نو‘ ریاض حسین چودھری کے مجموعوں ہی میں نہیں اُردو نعت کے مجموعوں میں ایک خوشگوار اور رجحان نما مجموعہ ہے خصوصاً مضامینِ نعت اور بیان میں شاعر نے جس شیفتگی اور فدویّت کا اظہار کیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ جذبہ اور وفور سب شاعروں کی نعت گوئی کا مقدّر بنائے۔ (آمین)

آخر میں ریاض حسین چودھری کے لیے ایک رباعی:

مبروک! ریاض کو دبستانِ نو
حمد اور یہ نعت کا دیوانِ نو
حَب خیز ولا فترا معرّا نظمیں
کیا خوب لیے ہوئے ہیں امکانِ نو

 ڈاکٹر ریاض مجید
فیصل آباد