دبستان نو (2016)
’’دبستانِ نو‘‘ ’’جدید لہجے کے اُن نعت نگاروں کے نام جن کے قلم کی ہر جنبش نئے آفاق کی تسخیر کا مژدہ سنا کر ہر لمحہ محرابِ عشق میں محوِ درود رہتی ہے‘‘۔ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر ریاض مجید نے تحریر کیا ہے اور تفصیل سے ریاض حسین چودھری کے شعری محاسن کا جائزہ لیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’چودھری صاحب کی نعت گوئی کا بڑا حصہ ہم سب نعت کے شاعروں کی طرح غزل کی صنف میں کہی گئی نعتوں پر مشتمل ہے۔ غزل کی ترتیب اور مقبولیت کے سبب ہر دورِ نعت میں اس صنف کا اتنی محبت، شدّت اور کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ کسی دوسری صنف شاعری میں اس کا دسواں حصہ بلکہ عشر عشیر بھی نہیں برتا گیا۔ غزل کے علاوہ خصوصاً معّرا نظم میں ایسا ضخیم مجموعہ معاصر نعتیہ شاعری میں پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اس سے اردو نعت کے ہیٔتی اور صنفی آفاق وسیع ہوئے ہیں۔‘‘ شیخ عبدالعزیز دباغ لکھتے ہیں: ’’ریاض حسین چودھری کا تازہ نعتیہ مجموعہ ’’دبستانِ نو‘‘ نعتِ معرّیٰ کا ایسا فن پارہ ہے جس کا تجربہ نعتیہ ادب میں ابھی تک کوئی نہیں کر سکا۔ پیرایہ اظہار ریاض کے ہاں وہ چار گرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا ہے۔ ریاض کے اس مجموعۂ نعت میں عوامل نعت نگاری کے تنوع اوروفور کی بدولت ان کے عملِ تخلیق کا دریا حسنِ شعریت کی جملہ رعنائیوں کے ساتھ اچھل کر سمندر ہو گیا ہے۔جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاض کا شعورِ نعت آج سے ایک صدی بعد کی ہیئتِ نعت کا عرفان حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح دبستانِ نو اگلی صدی کی نعت کی ہیئتِ ترکیبی کے خد و خال لئے ہوئے ہے۔ ھیئتِ نعت کی اس صدسالہ پیش بینی کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ امت پر انتشاروافتراق کی عتاب ناکیاں جو آج ہیں کل نہ تھیں جبکہ آنے والے وقت میں طوفانِ بلا کی بے کرانیاں حدِ ادراک سے ماورا نظر آتی ہیں ۔ اس سے شعورِ نعت اور اس کے وسائلِ اظہار کی پہنایاں بھی اسی قدر تصور و تخیل سے دور آگے نکل گئی ہیں۔لمبے اور کٹھن سفر میںاضافی زادِ راہ گرا دیا جاتا ہے ، ورنہ سفر کی رفتار مدھم اور منزل دور ہو جاتی ہے۔ معرّیٰ بھی ردیف و قافیہ ار دیگر شعری پابندیوں کو گرانے کا نام ہے ۔ مگر ریاض نے ہمیںوہ ’’دبستانِ نو‘‘ دیا ہے جس میں معرّیٰ ہی سہی رعنائی اظہار کا اھتمام ترک نہیں کیا جا سکتا۔اس طرح ان کی ’’دبستانِ نو‘‘ اس صدی کی آخری دہائی کی خوبصورت نعت ہے جو کل کے نعت گو کا فنی سرمایہ ہے۔ ‘‘
فہرست
ریاض حسین چودھری کی معرّیٰ حمد و نعت (ڈاکٹر ریاض مجید)
وہی ہے خالق و مالک ازل ابد اُس کے
اگلی صدی کی نعت (شیخ عبدالعزیزدباغ)
یا خدا! تُو ہمارا نگہبان ہے
ہر پرندے کی زباں پر ہَے تری حمد و ثنا
شعورِ بندگی سے کاسۂ نطق و بیاں بھر دے
خدایا! اپنی رحمت کے دریچوں کو کھُلا رکھنا
سجدہ ریزی ہو مرے اشکِ ندامت کی قبول
مرے قاتل مجھی سے مانگتے ہیں خوں بہا میرا
مجھے تُو ہادیٔ برحق کے مکتب کی بنا تختی
اُسی کے نام سے سیّارگاں گردش میں رہتے ہیں
ترے کرم کا ہَے ہر سلسلہ بھی لا محدود
تیرے اذنِ خاص سے زرخیز ہَے میرا قلم
مشکلیں میری لمحوں میں آسان کر
میرے سجدے ہیں مصلّے پر ندامت کے بغیر
بارشوں کے شور میں کاغذ کی کشتی کیا کرے
یا خدا! ساری مقفل ساعتیں گردش میں ہوں
آبخورے لکھ رہے ہیں تشنگی کی داستاں
قضا غریب ممالک کی سرحدوں پر ہے
مَیں مصائب کی اٹھائے پھر رہا ہوں گٹھڑیاں
کسی غارِ حرا کو ڈھونڈتا ہوں مضطرب ہو کر
میری ہر الجھن کی گرہیں کھولتا رہتا ہَے کون؟
ہم عَصرِ کربلا کا کیوں رزق بن رہے ہیں؟
یا خدا صحنِ کراچی پر کرم کی بارشیں
دیدہ و دل میں وہی کلکِ ثنا کی روشنی
یا خدا! ابلیسیت بنجر زمیں میں دفن ہو
یا خدا! اگلے برس بھی عِلم کی چادر بچھے
مقفل لب تری حمد و ثنا کے پھول برسائیں
خدائے روز و شب! بستی کی ہر کھڑکی کھُلی رکھنا
اجازت خوشبوئوں کو دے فضا میں رقص کرنے کی
حصارِ خوفِ مسلسل میں دے رہا ہوں اذاں
ردائے حسن پھیلے اے خدا! اوراقِ تشنہ پر
تا ابد میرے گلستاں میں چلے بادِ نسیم
زمیں انکار کر دے بھوک کی فصلیں اگانے سے
آقاؐ، خدا وہ آپؐ کا کتنا عظیم ہَے
پرندے زخم کھا کھا کر مرے آنگن میں گرتے ہیں
جانتا ہے تُو مری آنکھیں ہیں کس کی منتظر؟
حضورؐ آپؐ ہی قرآں کی بولتی تصویر
اِس برس بھی قلم پھول لکھتا رہے
صلِّ علیٰ کی رم جھم ہونٹوں پہ گر رہی تھی
اُفق اُفق پہ مدینے کا سبز موسم تھا
حضورؐ اس کے گریباں سے یدِ بیضا نہیں نکلا
بساطِ امن لپیٹی ہَے فاختاؤں نے
ورق ورق پہ مرے دل کی دھڑکنیں ہیں مقیم
حضورؐ آپؐ ہی داعی ہیں امنِ عالم کے
ضمیرِ آدمِ خاکی گرفتِ شب میں ہَے
عافیت کی روشنی پھوٹے در و دیوار سے
درِ حضورؐ تجلی کا آئنہ بردار
ہر وقت یہاں عدل کی رم جھم ہَے برستی
جبیں پہ ایک بھی قطرہ نہیں ندامت کا
ہوا قلیل ہَے شہرِ قلم کے آنگن میں
ہوائوں سے اگر سر گوشیاں کرنے کی عادت ہے
کبوتر گنبدِ خضرا کے اس سے پیار کرتے ہیں
آقاؐ ہدف بنی ہَے دریچوں کی روشنی
کرم کہ مجھ کو ردائے کرم عطا کی ہَے
حضورؐ آپ کا شاعر ہدف ہَے سازش کا
ورق ورق کے مقدر میں روشنی لکھ دی
نصابِ عدل ہاتھوں میں لئے پھرتا ہوں برسوں سے
ہوا اس حکمنامے کو سرِ محفل جلا دے گی
لبوں کی خشک سالی کا مداوا نعت سے ہو گا
رہِ مدینہ کے اشجار پڑھ رہے ہیں درود
ہوائیں نامِ محمدؐ ادب سے لیتی ہیں
حضورؐ ہاتھ میں خالی ہیں چھاگلیں کب سے
در و دیوار بھی ہیں منتظر شاعر کی کٹیا کے
کئی دنوں سے مہاجن ہیں بستیوں میں مقیم
پھولوں میں لے چلو مجھے کلیوں میں لے چلو
جب مقدّر کا چمکے ستارا
اُمّت کو شامِ غم میں چراغِ ہنر ملے
ہوائے شہرِ نبیؐ کو سلام کرتا ہوں
ازل سے طوقِ غلامی ہَے میری گردن میں
حصارِ خوف میں سہمی ہوئی ہَے میری بینائی
ہوا چراغ جلائے مرے دریچے میں
مری آنکھو! ادب سے میرے تلوئوں سے لپٹ جائو
خوشبو چراغ لے کے کھڑی ہَے قدم قدم
قیامِ حشر ہَے جن کی فضیلتوں کا ظہور
یا نبیؐ ٹھنڈی ہوا لمحات کے ہاتھوں میں ہو
یا خدا! میری جبیں ہر ہر قدم سجدے کرے
حضورؐ ،نئی بیاضِ نعت لے کر حاضر ہوں
اس برس بھی رنگ لائے گا غلامی کا شعور
2013 کے حوالے سے ایک نعتیہ نظم
یہ کون امن کی ہر فاختہ کا دشمن ہَے
امت کے تن پہ ِعلم کی پوشاک ہو حضورؐ
غریبِ شہرِ تمنا کو آفتابِ قلم
غریبِ شہرِ سخن کا سلام ہو آقاؐ
گھر کا گھر ، گھر کی چوکھٹ پہ ہَے یا نبیؐ
مقیم ہَے مرے دامن میں رتجگوں کا ہجوم
بھوک سے چھوٹے ممالک کو ملے آقاؐ، نجات
آپؐ ہی لجپال ہیں اللہ کی ہر مخلوق کے
اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ
چلو اِس شام بھی اشکوں کی ہم برسات کرتے ہیں
درِ نبیؐ پہ ہَے شاداب موسموں کا ہجوم
کبھی تو بادِ بہاری چلے گی آنگن میں
قلم کو فرطِ حیرت سے مرے ہاتھوں پہ رکھ دینا
راستہ پوچھنا کیوں پڑا ہَے
بہت اداس ہوں اذنِ سفر کا طالب ہوں
حضورؐ اُمّت برہنہ سر ہے
یہ کون ہَے حضورؐ کا دیوانہ کون ہَے
دشمنِ انسانیت کیا ہم سے چھینے گا ہلال
مدینے کے ہر اک بچّے کے قدموں سے لپٹ جانا
آپؐ کے در پر کھڑا ہَے ایک فریادی حضورؐ
حضورؐ کشتیوں کے بادباں نہیں کُھلتے
بادِ صبا کھڑی ہَے چراغِ ثنا لئے
حصارِ جبرِ مسلسل میں سانس لیتا ہوں
راہِ عمل پہ چاند ستارے بچھے ہوئے
مرے قلم کو بھی آداب حاضری کے سکھا
ہوائیں باوضو ہو کر مصّلے پر کریں سجدے
امیرِ قافلہ خود بھی غبارِ راہ میں گم ہے
یہ انتظار کی شب بھی عظیم ہَے کتنی
حضورؐ آئے تو لہرائے عَلم توحیدِ باری کے
موسمِ میلاد کیوں تجھ کو خدا حافظ کہوں
حجازِ عشقِ پیمبرؐ میں گم رہے گا قلم
خرد چراغ جلانے پہ پھر مقرر ہو
تمام عکس ہیں مفرور آئنوں کے ابھی
مدینے کی ٹھنڈی ہوا مانگتا ہوں
امن کی ہر فاختہ ہَے آپؐ کے در کی کنیز
حضورؐ، جَبر و تشدد کا دور دورہ ہَے
اب کہاں میرے مقدر میں مدینے کا سفر
سرحدِ ادراک پر تفہیم کا موسم کھلے
قلم کی روشنی بکھرے گی مدحت کے جزیروں میں
تلاش ہَے یدِ بیضا کی ہم غلاموں کو
ہر ورق شہرِ ثنا، شہرِ ادب، شہرِ قلم
چمن زارِ قلم میں خوشبوئیں محوِ ثنا ہوں گی
قلم ضمیر کے ہاتھوں میں روشنی کا چراغ
ہماری غیرتِ ملّی پر سوالیہ نشان
آقا حضورؐ، خاکِ شفا کی ہوں بارشیں