اجازت خوشبوئوں کو دے فضا میں رقص کرنے کی- دبستان نو (2016)

نشمین آرزوؤں کے بناتا ہوں میَں گلشن میں
ہر ایک تنکے پہ لکھّا ہے مری پرواز کا مقصد
فلک کی بجلیوں سے دوستی کرنا نہیں آتی
تمناؤں کی شدّت ساتھ ہَے شاخِ بریدہ پر
ذخیرہ خشک سالی کا وراثت میں ملا مجھ کو
مخالف آندھیاں اٹھتی ہیں صحرائے حوادث سے
(جلے موسم کی اڑتی خاک میں خوشبو کہاں جائے)
بکھرتی جا رہی ہیں پتیاں پھولوں کی منظر میں
در و دیوار پر آنسو ہیں میری چشمِ پُرنم کے
خراشوں نے چھپا رکھا ہَے چہرہ لالہ و گل کا
ستارے مسکرانے کا ہنر بھی بھول بیٹھے ہیں
پرندوں پر ہَے گہری نیند کا غلبہ زمانوں سے
نہیں پانی کا قطرہ بھی مسائل کے جزیروں میں
خنک موسم اتر آئے خدائے روز و شب! اب تو
یہ بجھ جائیں خزاں کی آنکھ کی چنگاریاں یارب!
اجازت خوشبوؤں کو دے فضا میں رقص کرنے کی
وطن میں اپسرائیں پھول برسائیں اخوّت کے
وفا کی چاندنی برسے مکینوں کی نگاہوں سے
کُھلی آب و ہوا میں سانس لیں اہلِ چمن، مولا!
مچلتی شاخ سے پھولوں کی رعنائی لپٹ جائے
کنارِ آبجو جلتی ہواؤں کے تھپیڑوں نے
خنک پانی کے سارے آبخورے توڑ ڈالے ہیں
زمیں کا سارا پانی پی لیا ہَے ریگ زاروں نے
زمیں کالی گھٹاؤں سے برسنے کا ہنر سیکھے
زمیں جو ہر افق پر ڈھونڈتی رہتی ہَے بادل کو
زمیں کے زخم جتنے ہیں وہ تیرے در پہ لایا ہوں
ترے فضل و کرم کا ابر سب زخموں کو دھو ڈالے
خدایا! رم جھموں کے سبز موسم کو اشارا کر
شبِ آلام کے اب ختم ہونے کا ملے مژدہ
نئے موسم کے آنے کی خبر ہو اہلِ گلشن کو
خنک پانی اتر آئے مرے خالی کٹوروں میں
صبا صلِّ علیٰ کہتے ہوئے گذرے دریچوں سے
مرے آنگن کی چڑیوں کے ہو لب پر یا رسول اللہ
اڑیں نیلی فضا میں فاختائیں امن کی مولا!
الٹ جائے بساطِ زندگی دشمن ہواؤں کی
درندے لوٹ جائیں دور جنگل کے اندھیروں میں
خدایا! ہر طرف پرچم کھُلیں تیری خدائی کے
زمیں جھوٹے خداؤں کو نگل جائے خدا میرے
صدا آئے اذانوں کی زمیں کے سارے خطّوں سے
جبینیں ساری جھک جائیں ترے دربار میں مولا!
تحفّظ کی ردا اوڑھے ہوئے بادِ صبا نکلے
فضائے خوف میں اڑتے ہوئے جگنو سکوں پائیں
ہزاروں تتلیوں کے پر مقفّل کھول دے یارب!
خدائے آسماں! کرنوں کی بارش کر اندھیروں میں
چراغوں کو، گھنے پیڑوں کو، عمرِ جاوداں دے دے
ستاروں کی ردائیں ہر طرف بچھتی نظر آئیں
خدائے آسماں! کھیتوں میں کب سے بھوک اُگتی ہَے
سروں کی فصل کاٹی جا رہی ہَے موسمِ گُل میں
تشدد کی فضا نے گھیر رکھا ہَے گلستان کو
گلی میں شور بچوّں کا سنائی کس طرح دے گا

ہوائے عافیت کا ہر گلستاں میں بسیرا ہو
ترے فضل و کرم سے بستیوں میں پھر سویرا ہو