خدائے روز و شب! بستی کی ہر کھڑکی کھُلی رکھنا- دبستان نو (2016)
سفر دن کا بھی کب محفوظ ہَے اے قادرِ مطلق!
سفر شب کا، مسافر کے تصوُّر میں نہیں آتا
افق پر جھلملاتی روشنی منظر سے غائب ہَے
چراغوں کی لَووں کو ڈھانپ رکھا ہَے ہواؤں نے
چراغِ رہگذر سب ہیں غبارِ شب کے نَرغے میں
گرفتِ شب میں موسم سانس بھی رک رک کے لیتے ہیں
کسی جگنو کو اڑنے کی اجازت ہی نہیں ملتی
فضا زخمی پرندوں کے لہو سے سرخ ہَے مولا!
صبا کے پر جلا ڈالے گئے ہیں صحنِ گلشن میں
مقیّد خوشبوئیں ہیں بند گلیوں کے مکانوں میں
زمیں جھوٹے خداؤں کے تسلّط میں رہے کب تک
بچھے گی کب تلک بارود کی چادر زمینوں پر
دکھائی کچھ نہیں دیتا، اندھیرا ہی اندھیرا ہے
مگر اندر کی بینائی مجھے رستہ دکھائے گی
یہ بینائی بھی تیری ہی عطا ہَے، خالق و مالک!
خدائے روز و شب! منظر کا پس منظر بدل جائے
پگھل جائیں یہ زنجیریں، پگھل جائیں یہ تعزیریں
خدائے روز و شب! بستی کی ہر کھڑکی کُھلی رکھنا
کسی بھی آزمایش کے نہیں قابل ترے بندے
حصارِ عافیت میں رکھ تُو انسانوں کا ہر خطّہ
اندھیرے تیری ہر بستی سے اب رختِ سفر باندھیں
بریدہ شاخ پر پھولوں کی بارش ہو مرے مولا!
چراغِ آرزو بانٹیں ہوائیں میرے بچوّں میں
بصیرت کے دیے ہر موڑ پر روشن رہیں، یارب!
کتابوں میں چُھپی دانش سخن میں روشنی بھر دے
مرے بچوّں کے ہر اک خواب کو تعبیر مل جائے
ہمیشہ کے لئے افسردگی ہو دفن مٹی میں
سفر دن کا بھی کب محفوط ہَے اے قادرِ مطلق!
خدا کا شکر ہَے بادِ صبا ہَے ہمسفر میری
فلک کے چاند تاروں سے بھری ہَے رہگذر میری