مقفل لب تری حمد و ثنا کے پھول برسائیں- دبستان نو (2016)

حصارِ سنگ و شر میں پرورش ہوتی ہَے فتنوں کی
حصارِ خوف میں انسان کی آنکھیں نہیں کُھلتیں
حصارِ جَبر میں ہر سانس بھی دم توڑ جاتی ہَے
تلاشِ رزق میں کب سے درندے شور کرتے ہیں
پسِ دیوارِ گریہ خون فریادی ہَے انساں کا
صفِ ماتم بچھاتی ہیں ہوائیں شہرِ پُرنم میں
غبارِ شب نے ہر منظر چھپا رکھا ہَے صدیوں سے
کوئی جگنو نظر آتا نہیں بچوّں کی مٹھی میں
کوئی تتلی نہیں اڑتی فضائے فتنہ و شر میں
چراغِ آرزو روشن دکھائی کس طرح دے گا
خدائے روز و شب تیری زمیں پر حَشر برپا ہَے
غبارِ شب کی چادر کو اٹھا لے پورے منظر سے
مقفّل لب تری حمد و ثنا کے پھول برسائیں
دعاؤں پر جو پابندی ہَے وہ بھی ختم ہو جائے
اندھیروں کی حکومت کو نگل جائے زمیں تیری
بڑے ہی کرَب کے عالم میں ہَے سرکارؐ کی اُمّت
خدایا! اپنی رحمت کے چمن زاروں کی خوشبو دے
خنک آبِ کرم خالی کٹوروں میں بھرے شبنم
اُفق پر امن کی تحریر بھی یارب! فروزاں ہو
ہوائے امن بانٹے عافیت کے پھول بستی میں
خدایا! تیری ہر بستی میں اُترے عِلم کا سورج
خدایا! ہر دریچے میں صبا کلیاں سجا جائے
خدایا! قریے قریے پر ہو بارش لالہ و گل کی
خدایا! فتنہ و شر دفن ہو جائیں اندھیروں میں
خدایا! ذہنِ انسانی کی گرہیں کھول دے ساری
خدایا! قصرِ شاہی کے در و دیوار گر جائیں
خدایا! پھر یدِبیضا عطا کر اپنے بندوں کو
زمیں زخمی ہے اس پر ہر گھڑی خاکِ شفا برسے
(مکینِ گنبدِ خضراؐ کے قدموں کے تصدّق میں)

خلافِ عدل ہر اک فیصلہ منسوخ ہو جائے
قلمداں شر پسندوں کا کسی جنگل میں کھو جائے